قراءت کی اس مجلس میں شرکت کرتے اور جب قاری صاحب قرآن کی تلاوت کرتے تو ان پر رقت طاری ہو جاتی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے۔ ’’یہ کون صاحب ہیں؟‘‘ وہ پُر وقار اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ جدھر سے گزر جاتے، اُنہیں دیکھ کر واقف اور ناواقف کے قدم وہیں رُک جاتے اور آنکھیں اُن کے چہرے پر گڑ جاتیں۔ واقف جھک کر سلام کرتے اور ناواقف تعجب سے پوچھتے کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ جماعت کی تنظیم کے سلسلے میں، لاہور سے بذریعہ ٹرین ملتان روانہ ہوئے۔ ساہیوال کے ارکانِ جماعت کو ٹیلیفون کے ذریعے پہلے سے پروگرام کی اطلاع دی جا چکی تھی۔ وہ سٹیشن پر آئے۔ مولانا اپنے ڈبے سے اُتر کر پلیٹ فارم پر تشریف لائے۔ ملتان ڈویژن کے کمشنر بھی پلیٹ فارم پر موجود تھے۔ وہ ساہیوال کے سرکاری دَورے پر آئے تھے اور اُن کو اسی گاڑی سے ملتان جانا تھا۔ ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر اور دوسرے سرکاری حکام ان کو الوداع کہنے کے لیے حاضر تھے۔ مولانا پلیٹ فارم پر آئے تو کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اُن کے ساتھیوں نے ان کی طرف دیکھا۔ آپس میں کوئی بات کی اور ڈپٹی کمشنر نے چوہدری عبدالقادر (مرحوم) کی طرف قدم بڑھائے، وہ چوہدری صاحب سے متعارف تھے۔ پوچھا: ’’یہ کون صاحب ہیں؟‘‘ کہا: ’’مولانا داؤد غزنوی!‘‘ پھر وہ دونوں مولانا کے پاس آئے۔ چوہدری صاحب نے ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نے کمشنر صاحب کا تعارف کرایا۔ دونوں نے ادب سے جھک کر سلام کیا اور کہا: آپ کے بارے میں سنا تو بہت کچھ تھا لیکن نیاز مندی کا شرف آج ہی حاصل ہوا۔ گفتگو چونکہ جماعتی نوعیت کی ہو رہی تھی، اس لیے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر دعا کی درخواست کر کے علیحدہ کھڑے ہو گئے اور جب تک مولانا کھڑے رہے، وہ ان کو دیکھتے رہے۔ |