میں نہیں آ گئے ہیں۔ کتابوں کو دیمک اور گردوغبار وغیرہ سے محفوظ رکھنے کی پوری کوشش کرتے۔ کپڑے سے کتابیں خود صاف کرتے۔ کیڑے مکوڑے سے حفاظت کی غرض سے نیم کے پتے کتابوں میں ڈالتے۔ کہا کرتے کہ یہ کتابیں میری جائیداد ہے۔ میں انہیں اپنا اور بچوں کا پیٹ کاٹ کر خریدتا ہوں۔ علم فقہ سے ان کو بہت دلچسپی تھی۔ چنانچہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی وغیرہ تمام مسالکِ فقہ کی کتابیں ان کے پاس موجود تھیں۔ فتاویٰ نویسی میں چونکہ ان کو خاص درک تھا، اس لیے اکثر عربی اور اُردو پر مشتمل کتبِ فتاویٰ ان کے پاس موجود تھیں۔ وہ ہر موضوع سے متعلق کتابوں کا باقاعدہ مطالعہ کرتے تھے اور اہم مقامات پر نوٹ لکھتے۔ لاہور میں تجوید و قراءت کا پہلا مدرسہ قرآنِ مجید سے ان کو خصوصیت سے تعلقِ خاطر تھا۔ بعض اہل حدیث حضرات جس انداز سے قرآن پڑھتے اور مخارجِ حروف کی صحت سے بے نیازی برتتے ہیں، اس سے انہیں سخت ذہنی کوفت ہوتی۔ ایک دن اُنہوں نے بتایا (غالباً 1930ء کا ذکر کیا) کہ لاہور میں قرآن مجید کی قراءت و تجوید کا پہلا مدرسہ مسجد چینیاں والی میں، میں نے قائم کیا اور اس کے لیے قاری فضل کریم (مرحوم) کی خدمات حاصل کیں۔ مولانا کو اس مدرسے سے بہت دلچسپی تھی۔ اس کے لیے مسجد چینیاں والی کی مجلسِ منتظمہ طلباء کو بیس بیس روپے مہینہ وظیفہ دیتی تھی تاکہ اہل حدیث حضرات میں قراءت و تجوید کا ذوق پیدا ہو۔ اس خدمتِ قرآن پر کئی مشہور قاری متعین تھے۔ جن میں قاری فضل کریم مرحوم، قاری اظہار احمد تھانوی مدظلہ اور قاری محمد صدیق کے اسمائے گرامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ طلبائے قراءت کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر مولانا خود تشریف لاتے اور |