Maktaba Wahhabi

155 - 458
جذبہ انسانیت وقت گزر جاتا ہے اور انسان اپنا دَور ختم کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے لیکن اس کی بعض باتیں ایسا اثر چھوڑ جاتی ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتا اور وہ باتیں اس وقت زیادہ نمایاں ہو کر سطحِ ذہن پر اُبھرتی ہیں جب اس کی مثالیں معدوم ہوتی جا رہی ہوں اور پرانے نقش مٹتے جا رہے ہوں۔ یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں تو مولانا کی اس قسم کی بے شمار باتیں لوحِ ذہن پر ہجوم کر آئی ہیں، جو صرف اسی کردار کے لوگوں کے ساتھ مختص تھیں۔ اس سلسلے کی ایک بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ دسمبر کے دن تھے۔ رات کے ڈیڑھ بجے میرے گاؤں سے بذریعہ ٹیلیفون میری ایک عزیزہ کی وفات کی اطلاع آئی۔ ٹیلیفون مولانا نے سنا۔ ٹیلیفون کرنے والے سے میرے رشتے کی نوعیت پوچھی، متوفیہ کا نام اور اس کا مجھ سے رشتہ و تعلق دریافت کیا، جنازے کا وقت پوچھا اور پھر اس سے اظہارِ افسوس کیا۔ اسی وقت نیچے اُترے، دفتر کے ملازم محمد یوسف کے مکان پر گئے۔ اس کو جگایا اور میرے گھر بھیجا۔ مجھے یاد ہے، سوموار تھا جو ’’الاعتصام‘‘ کی ترتیب کے سلسلے میں شدید مصروفیت کا دن تھا۔ مولانا نے محمد یوسف کو میرے بارے میں تاکید کی کہ دفتر آنے کی ضرورت نہیں، صبح جلد سے جلد گاؤں پہنچیں، اخبار کا کوئی فکر نہ کریں، سارا کام ہو جائے گا اور پھر وہاں سے آج ہی لوٹنے کی ضرورت نہیں، انسان کی موت کا معاملہ ہے، دو چار روز ٹھہر کر آئیں۔ آہ! اس قسم کے جذبہ انسانیت کے حامل لوگ اب کہاں پیدا ہوں گے۔ اس قسم کا ایک اور واقعہ بھی سنانے کو جی چاہتا ہے۔ اکتوبر 1956ء کی بات ہے، میں گاؤں گیا۔ وہاں سے چلنے لگا تو ایک بزرگ کی وفات کی اطلاع ملی۔ مجھے وہاں رُکنا پڑا۔ لاہور ٹیلیفون کیا۔ مولانا سے بات ہوئی تو بہت حزن و ملال کا اظہار کیا اور اسی وقت
Flag Counter