تقویۃ الاسلام (لاہور) میں منعقد ہوئی۔ اس کے صدر مجلس استقبالیہ مولانا محمد حنیف ندوی اور صدر کانفرنس مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی تھے۔ میرا تعلق جمعیۃ کی نظامتِ دفتر سے تھا۔ اس کانفرنس کے سلسلے میں مجھے بڑی بھاگ دَوڑ کرنا پڑی۔ 29 مئی کو کانفرنس ختم ہوئی اور 30 مئی کو میں بیمار پڑ گیا اور ایک مہینہ سخت تکلیف میں مبتلا رہا۔ مولانا روزانہ میرے لیے شام کو پھولوں کے ہار لاتے، کئی دفعہ میری عیادت کو تشریف لاتے اور مجھے تسلی دیتے۔ طلباء کو میری خبر گیری کی تاکید فرماتے۔ مجھے یاد ہے اُن کے صاجزادہ گرامی قدر سید ابوبکر غزنوی ایک دو مرتبہ روزانہ مجھ سے پوچھتے۔ مولانا نے میری بیماری کے سلسلے میں کئی مشہور ایلوپیتھک اور یونانی معالجوں کو بلایا اور علاج کا بہترین انتظام کیا۔ ان کی اور مولانا محمد حنیف ندوی کی تجویز سے علاج کے تمام اخراجات مرکزی جمعیۃ نے ادا کیے۔ یہ ان کی انسانی ہمدردی کی وہ مثال ہے، جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ ’’یہ کپڑا آپ کی قمیص کے لیے ہے‘‘ مولانا عام طور پر عصر کے بعد اپنے چھوٹے بھائی حافظ سلیمان غزنوی مرحوم کی دوکان پر انارکلی بازار جاتے اور خاصی دیر وہاں بیٹھتے۔ کبھی کبھی مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ حافظ صاحب مرحوم کی کپڑے کی خاصی بڑی دکان تھی۔ ایک روز میں ساتھ تھا۔ مولانا نے کپڑا خریدا اور مجھ سے بھی مشورہ لیا کہ قمیصوں کے لیے یہ کپڑا کیسا رہے گا اور یہ کیسا؟۔ میں ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے‘‘ کہتا رہا۔ مولانا نے میرے لیے قمیص کا کپڑا خریدا اور فرمایا: ’’یہ آپ کی قمیص کے لیے، پسند ہے آپ کو؟‘‘ میں نے انکار کیا تو بولے: ’’بس خاموش رہیے۔ یہ فیصلہ ہو چکا۔‘‘ پھر خود ہی سلائی کے لیے درزی کو دیا اور اس کی سلائی کی اُجرت بھی اپنی گِرہ سے ادا کی۔ |