Maktaba Wahhabi

153 - 458
یا مجھے معاف کر دو۔ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔‘‘ مولانا رو رہے تھے اور بار بار یہ الفاظ دہراتے جاتے تھے۔ بہرحال بڑی مشکل سے محمد عمر کو منانے میں کامیاب ہوئے۔ اس سے ان کی اخلاقی عظمت اور کردار کی بلندی کا اندازہ لگائیے۔ بعض دفعہ مولانا اس کو چھیڑ دیتے۔ محمد عمر کوئی دلی کی بات سناؤ۔ وہ ’’سنو مولانا صاحب!‘‘ کہہ کر شروع ہو جاتا اور بات ختم ہونے میں نہ آتی۔ مولانا فرماتے: ’’اچھا محمد عمر باقی آئندہ۔ اب تم کام کرو۔ یہ داستانِ امیر حمزہ ابھی ختم نہیں ہو گی۔‘‘ محمد عمر اب بھی دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے اسی کمرے میں رہ رہا ہے۔ وہاں جائیں تو خیال ہوتا ہے، ابھی محمد عمر کہہ کر مولانا اس کو آواز دیں گے۔ وہ جواب نہیں دے گا تو فرمائیں گے: ’’حقہ پی رہا ہو گا۔ اس کو سمجھاؤ۔ مجھے پریشان نہ کیا کرے۔ بات سمجھ لیا کرے۔‘‘ بولے بدّل میری بات بھی سنو! ’’جماعتِ اہل حدیث اور جماعتِ اسلامی سوئی پڑی ہیں‘‘ میں الاعتصام سے منسلک تھا اور مولوی محی الدین سلفی جماعتِ اسلامی سے تعلقِ رکنیت رکھتے تھے اور جماعت کے ترجمان سہ روزہ ’’کوثر‘‘ میں کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ دارالعلوم تقویۃ الاسلام میں تعلیم حاصل کرتے تھے اور ان کی رہائش دارالعلوم ہی میں تھی۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ ہم لوگ باہر سوئے ہوئے تھے۔ فجر کی اذان ہوئی اور جماعت بھی ہو گئی، لیکن میں اور مولوی محی الدین نیند میں اس درجہ مستغرق تھے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ نماز سے فارغ ہو کر مولانا باہر آئے، دیکھا کہ ہم سوئے پڑے ہیں، جگایا نہیں، فرمایا: ’’جماعتِ اہل حدیث اور جماعتِ اسلامی سوئی پڑی ہیں۔‘‘ یہ الفاظ بیک وقت ہم دونوں کے کانوں میں گونجے اور ہم جلدی سے اُٹھ بیٹھے۔ مولانا نے اس سے آگے کچھ نہیں کہا اور اوپر چلے گئے۔
Flag Counter