ملاقات کا ذریعہ بنتا۔ وہ قدرے بہرہ ہے۔ بعض دفعہ مولانا کی بات سمجھ نہ سکتا، تو زبان کے بجائے سمجھنے کے لیے آنکھ سے اشارہ کرتا۔ کوئی اور بھی موجود ہوتا، تو مولانا اس کی اس ادا پر ہنستے اور فرماتے۔ اس کو سمجھاؤ مجلس کے آداب کا تو خیال رکھے۔ یہ بارہ سال دہلی میں رہا ہے اور بھاڑ جھونکتا رہا ہے۔ محمد عمر کوئی سودا لے کر آتا، تو مولانا اگرچہ کتنے مصروف ہوں اور ان کے پاس کوئی بھی بیٹھا ہو، محمد عمر بغیر کچھ دیکھے سیدھا اُن کے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا اور کہتا: ’’یہ لو، اتنے پیسے بچے، پکڑو، مجھے اتنے پیسے باقی دو۔‘‘ مولانا لاکھ سمجھاتے کہ پھر حساب کریں گے۔ اب تم جاؤ مگر وہ ایک نہ سنتا اور کہتا: ’’پھر بھول جائیں گے، یہ لے ہی لو۔‘‘ اِس کے جانے کے بعد مولانا اس کی بڑی تعریف کرتے۔ مولانا سے ملاقات کے لیے یہ بڑے بڑوں کی پرواہ نہ کرتا اور لوگ اس کے محتاج ہوتے۔ کوئی مولانا کے متعلق پوچھتا تو جواب دیتا: ’’مولانا صاحب! ابھی نہیں آیا۔‘‘ یا کہتا: ’’ابھی آیا ہے، تھوڑی دیر ٹھہرو۔‘‘ ملاقاتی اس کو ’’ایک اہم شخصیت‘‘ قرار دیتے اور مولانا مسکرا پڑتے۔ ایک مرتبہ عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ مولانا نے محمد عمر سے کسی کام کے لیے بات کہی۔ وہ سمجھ نہ پایا اور کام نہ ہو سکا۔ کام کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ مولانا سخت پریشان ہوئے اور جلال میں آ گئے اور محمد عمر کو ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ محمد عمر کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ وہ کمرے سے باہر نکل گیا اور ملازمت ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مولانا نے حافظ عبدالرشید کو بلایا وہ بڑی مشکل سے محمد عمر کو مولانا کے پاس لائے۔ مولانا بھی رو پڑے اور محمد عمر بھی رو پڑا۔ مولانا نے حافظ عبدالرشید کو سارا واقعہ سنایا اور پھر محمد عمر کی طرف متوجہ ہو کر کہا: ’’لو محمد عمر میں حاضر ہوں، میں نے تم کو تھپڑ مارا، یا تو تم مجھے تھپڑ مارو اور اپنا بدلہ لے لو |