نام میں احتیاط مولانا دوسروں کا پورا نام لینے کے عادی تھے اور اس میں بہت احتیاط کرتے تھے۔ اس کی ایک مثال قابلِ ذکر ہے۔ میں 1948ء کے آخر میں جمعیتِ اہل حدیث کے ناظمِ دفتر کی حیثیت سے لاہور آیا۔ مولانا جمعیت کے صدر تھے اور پروفیسر عبدالقیوم صاحب ناظمِ اعلیٰ۔ پروفیسر صاحب موصوف اس زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ عربی میں تھے۔ ان کا اُصول تھا کہ کالج سے فارغ ہو کر ڈیڑھ دو بجے روزانہ دفتر تشریف لاتے اور ضروری کاغذات دیکھتے۔ ایک روز مولانا نے مجھ سے اُن کے بارے میں پوچھا تو میں نے عرض کیا: ’’قیوم صاحب آئے تھے، خاصی دیر بیٹھے رہے ہیں۔‘‘ مولانا نے فرمایا: قیوم صاحب مت کہیے۔ عبدالقیوم صاحب کہیے۔ قیوم صاحب، قیوم صاحب، غفار صاحب، جبار صاحب، قہار صاحب، رحمٰن صاحب کہنا غلط ہے۔ عبدالقیوم، عبدالحی، عبدالغفار، عبدالجبار، عبدالقہار، عبدالرحمٰن کہنا چاہیے۔ یہ وہ صفات ہیں جو صرف اللہ کے لیے مخصوص ہیں۔ البتہ آپ کریم، وکیل، حفیظ وغیرہ صفات کسی انسان کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ مولانا کا خادمِ خاص مولانا باہر تشریف لے جاتے یا گھر میں قیام فرما ہوتے، اُن کا ملازم اور خادمِ خاص محمد عمر تبتی ان کے ساتھ ہوتا۔ مولانا اس پر بہت اعتماد کرتے تھے اور اس کی دیانت و امانت کی قدر کرتے تھے اور اُس کی اِس خوبی کا بارہا ذکر کرتے۔ اس کو آواز دیتے، تو ہمیشہ محمد عمر کہہ کر پکارتے۔ باہر سے جو شخص بھی مولانا سے ملنے آتا، محمد عمر سے رابطہ پیدا کرتا اور وہی مولانا سے |