Maktaba Wahhabi

149 - 458
کیکر کا سایہ مولانا میں یہ خوبی تھی کہ جس موضوع سے متعلق بات کرتے، اس کی اس انداز سے تشریح فرماتے کہ اصل چیز آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتی۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ میں مولانا کے پاس بیٹھا تھا کہ دارالعلوم کے چند طلباء آئے۔ مولانا نے فرمایا: ’’کہیے مولوی صاحبان! کس طرح تشریف لائے؟‘‘ انہوں نے آہستگی سے کہا: ’’دو ہفتوں کی چھٹیوں کی درخواست ہے۔‘‘ فرمایا: ’’کیوں؟‘‘ کہا: ’’اس لیے کہ گرمی بہت پڑ رہی ہے۔ ہم اپنے اپنے گاؤں میں جانا چاہتے ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’یہاں گرمیوں کے لیے تمام انتظامات موجود ہیں۔ ٹھنڈا پانی ہے، نہانے کا انتظام ہے، بجلی کے پنکھے ہیں، کھلی عمارت ہے۔ اس سے زیادہ تمہیں اور کیا چاہیے۔‘‘ طلبا نے کہا: ’’دیہات کی فضا آج کل بہت اچھی ہوتی ہے۔ کھلی جگہ ہے، سایہ دار درخت ہیں اور باغات ہیں۔‘‘ مولانا نے ایک طالب علم سے پوچھا: تمہارا باغ ہے؟ کہا: نہیں۔ دوسرے سے پوچھا: تمہارا باغ ہے؟ بولا نہیں۔ تیسرے سے پوچھا: تمہارا باغ ہے؟ جواب دیا: نہیں! فرمایا: تو تمہیں لوگوں کے باغوں سے کیا تعلق؟ پھر میری طرف متوجہ ہوئے، فرمایا: ’’مولوی اسحاق! آپ دیہات کی زندگی سے واقف ہیں۔ لوگ کھیتوں میں جا کر کیکر کے درخت کے نیچے چارپائی ڈال لیتے ہیں۔ اس سے دھوپ جھانکتی رہتی ہے، پھر جیسے جیسے سایہ بدلتا رہتا ہے۔ لوگ اپنی چارپائیاں کھینچتے جاتے ہیں۔ دس منٹ بھی آرام سے ایک جگہ نہیں بیٹھ سکتے۔‘‘ یہ کہہ کر طلباء کی طرف رخ کیا اور کہا: ’’جاؤ آرام کرو، جا کر پڑھو۔ کوئی چھٹی نہیں۔ پڑھنے کے لیے آئے ہو یا چھٹیاں لینے کے لیے!‘‘ ہمدردی کی ایک مثال 27، 28، 29 مئی 1949ء کو جمعیۃ اہل حدیث مغربی پاکستان کی پہلی کانفرنس دارالعلوم
Flag Counter