رکھ لیا ہے۔ عبداللہ اور عبدالرحمٰن میں اللہ کے حضور عجز و انکسار پایا جاتا ہے، اسی لیے یہ دونوں نام اللہ کو محبوب ہیں۔ معلوم نہیں آپ احیائے دین کرتے ہیں یا نہیں، مگر رحمٰن کے بندے ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں۔ چنانچہ غزنویوں میں وہ محی الدین کے بجائے مولانا عبدالرحمٰن لکھوی کے نام سے مشہور تھے۔ مولانا بھی یہ واقعہ ’’مولانا عبدالرحمٰن‘‘ کہہ کر ہی بیان فرماتے۔ یہ مولانا عبدالرحمٰن یا مولانا محی الدین مولانا محمد علی لکھوی مدنی کے والد اور مولانا محی الدین اور معین الدین کے دادا تھے۔ مولانا عبدالرحمٰن لکھوی غالباً دو مرتبہ غزنی گئے اور حضرت مولانا عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔ اسی خاندانی تعلق کی بناء پر مولانا محمد علی لکھوی (نزیل مدینہ منورہ) مدظلہ اور مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ ایک دوسرے سے بہت تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ تو اس کا عملی اظہار اس طرح بھی ہوا کہ مولانا غزنوی رحمہ اللہ ایک سیاسی تحریک میں گرفتار ہوئے تو مسجد چینیاں والی میں خطابت و تدریس کے لیے مولانا نے خاص طور پر مولانا محمد علی لکھوی کو تکلیف دی۔ انہی قدیم خاندانی تعلق کی وجہ سے مولانا داؤد غزنوی مرحوم، مولانا معین الدین لکھوی اور ان کے بڑے بھائی مولانا محی الدین لکھوی کو اپنے عزیز گردانتے تھے۔ دارالعلوم کے اساتذہ کرام مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ جن حضرات کو خصوصیت سے عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے، ان میں دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے اساتذہ کرام قابلِ ذکر ہیں۔ مولانا محمد اسحاق صاحب، مولانا حافظ عبدالرشید صاحب اور دیگر حضرات کا عمدہ الفاظ میں ذکر کرتے۔ حافظ عبدالرشید صاحب سے تو قلبی لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ ان کو خاص طور سے بعض مضامین کی تیاری کرائی اور اس کے لیے ان کو ماہانہ وظیفہ بھی دیتے رہے۔ |