میں وقف کر دیں گے۔ اُس سے دنیا کا کوئی کام نہ لیں گے۔ ان کی دعا قبول ہوئی، اللہ نے ان کو لڑکا عطا فرمایا۔ اس کا نام اُنہوں نے محی الدین رکھا اور اللہ کی راہ میں وقف کر دیا۔ یہ لڑکا بہت نیک اور پرہیزگار تھا۔ اپنے اس لڑکے کی تعلیم و تربیت کا حافظ محمد صاحب مرحوم نے خاص طور سے اہتمام کیا۔ جب یہ بڑے ہوئے، تو معلوم ہوا کہ غزنی میں ایک بزرگ رہتے ہیں جن کا نام عبداللہ ہے۔ یہ بزرگ نیکی و تدین میں مرجع خلائق ہیں اور ہمہ وقت دعوت و ارشاد میں مصروف رہتے ہیں۔ حضرت حافظ صاحب مرحوم نے اپنے بیٹے مولانا محی الدین رحمۃ اللہ علیہ کو لکھوکے سے حضرت عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ کی خدمت میں غزنی روانہ کر دیا۔ مولانا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تو بات میں زور پیدا کر کے فرماتے: ’’اندازہ لگائیے، حافظ محمد صاحب نے مولانا محی الدین کو اس زمانے میں یعنی آج سے تقریباً ایک صدی پیشتر فیروز پور سے غزنی تک کے لیے سو روپے زادِ راہ دیا۔‘‘ ’’سو روپے‘‘ کے لفظ پر خصوصیت سے زور دیتے اور ساتھ ہی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مولانا محی الدین اتنے نیک تھے کہ جب وہ غزنی کے قریب پہنچے تو دادا صاحب کو اللہ کی طرف سے بذریعہ الہام معلوم ہو گیا کہ ایک بزرگ ملاقات کے لیے آ رہے ہیں، چنانچہ وہ ان کے استقبال کے لیے گھر سے باہر نکلے اور جاتے ہوئے گھر میں کہہ گئے کہ پنجاب سے ایک بزرگ آ رہے ہیں، ان کے لیے کھانا تیار کرو اور اچھا کھانا تیار کرو۔ (یہ لفظ بھی وہ دو تین بار کہتے) پھر ہنس کر کہتے: ’’اچھا کھانا کیا ہو گا۔ حلوہ پکانے کو کہا ہو گا۔‘‘ مولانا کہا کرتے تھے کہ مولانا محی الدین دور سے آتے دکھائی دیے، تو دادا صاحب احترام سے ان کی طرف بڑھے، انہیں گھر لائے، خیر خیریت پوچھی، کھانا کھلایا اور باتیں کیں۔ ان سے نام پوچھا، تو جواب دیا: ’’میرا نام محی الدین ہے۔‘‘ فرمایا: اپنا نام عبدالرحمٰن رکھ لیجیے، میرا نام محمد اعظم تھا۔اس میں عظمت اور بڑائی پائی جاتی ہے، اس لیے میں نے اپنا نام عبداللہ |