Maktaba Wahhabi

146 - 458
مولانا غزنوی رحمہ اللہ کی بڑی صاحبزادی بھی ساتھ تھیں۔ ایک دن مولانا کو دل کا دَورہ پڑ گیا اور تکلیف بہت زیادہ ہو گئی۔ ان کی صاحبزادی سخت پریشان ہوئیں، کیونکہ ڈاکٹر کو بلانا اُن کے لیے مشکل تھا۔ مولانا مودودی کو معلوم ہوا تو فوراً تشریف لائے اور ڈاکٹر کو بلایا۔ دیر تک مولانا کے پاس بیٹھے رہے۔ لڑکی کو تسلی دی، ضروری دوائیں منگوائیں اور کئی بار مولانا کے پاس آئے۔ واپس آئے تو یہ واقعہ پوری تفصیل سے مولانا نے مختلف مواقع پر کئی بار بیان فرمایا اور ہر دفعہ مولانا مودودی کا ذکر احترام سے کیا اور اُن کے لیے دعائے خیر کی۔ لکھوی خاندان سے تعلقات لکھوی اور غزنوی خاندان پنجاب کے دو مشہور خاندان ہیں۔ اہل حدیث کے علاوہ دوسرے مسالک سے منسلک لوگ بھی ان سے متاثر اور ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہیں۔ ان دو خاندانوں کے اہل علم بھی آپس میں بہت ربط و تعلق اور اُنس و محبت رکھتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ روابط بہت عرصے سے قائم ہے۔ غزنوی خاندان کے بزرگ افغانستان سے تشریف لائے تھے اور لکھوی بزرگ ضلع فیروز پور (مشرقی پنجاب) کے ایک گاؤں ’’لکھو کے‘‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان دو عظیم خاندانوں کے درمیان باہم کس طرح تعارف کی راہیں کھلیں اور پھر یہ تعارف کیونکر گہرے روابط کے قالب میں ڈھلا، اس کی تفصیل مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے راقم الحروف کو ایک سے زائد مرتبہ سنائی اور ہر مرتبہ یہی فرمایا کہ ہم دونوں لکھوی اور غزنوی خاندان، ایک دوسرے سے بہت ہی قریب ہیں اور ہمارے تعلقات کی بنیاد خالص دینی اور مسلکی ہے۔ مولانا نے بتایا کہ حضرت حافظ محمد لکھوی رحمۃ اللہ علیہ پنجاب کے بہت بڑے عالمِ دین بھی تھے اور انتہاء درجہ کے نیک اور متقی بھی۔ ان کے ہاں اولادِ نرینہ نہ تھی۔ اُنہوں نے اللہ سے دعا مانگی اور عہد کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں لڑکا عطا فرمائے، تو وہ اس کو اللہ کی راہ
Flag Counter