مولانا تو نمازِ عصر کے بعد ہفتے عشرے میں ایک دو مرتبہ بالعموم ان کے ہاں تشریف لے جاتے۔ مفتی صاحب کا بھی اصل موضوع تصوف تھا اور مولانا کا بھی۔ یہ دونوں بزرگ اکثر اسی موضوع سے متعلق گفتگو فرماتے تھے۔ مولانا سید ابو الحسنات مرحوم مولانا سید ابو الحسنات مرحوم، بریلوی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے، لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے، مسلکی تعصبات سے ان کا دل صاف تھا۔ تحریکِ ختم نبوت کے زمانے میں مولانا کی وساطت سے ان کو کسی حد تک قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ نماز کا وقت آتا، تو مولانا ان سے امامت کے لیے اصرار کرتے اور وہ مولانا سے۔ مجھے کئی دفعہ مولانا کے پیغام بر کی حیثیت سے اُن کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ وہ ان کا ذکر بہترین الفاظ سے کرتے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی بہت سے مسائل کی تعبیر میں اختلاف رائے کے باوجود مولانا غزنوی رحمہ اللہ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا احترام کرتے اور مجموعی اعتبار سے ان کی خدمات کو سراہتے اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ خود مولانا مودودی مشترکہ اسلامی معاملات میں ان سے مشورہ کرتے اور ان کی رائے کو اہمیت دیتے۔ ایک معاملہ تو ایسا پیش آیا کہ مولانا غزنوی رحمہ اللہ بار بار اس کا ذکر کرتے اور مولانا مودودی کو دعا دیتے تھے۔ وہ یہ کہ 1962ء میں حج کے موقع پر شاہ سعود مرحوم نے مدینہ یونیورسٹی کے زیرِ ترتیب نصاب اور ضروری امور میں مشوروں کے لیے مختلف ممالک کے اہل علم کو دعوت دی جس میں پاکستان سے مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کو دعوتِ شرکت دی گئی تھی۔ مدینہ منورہ میں ان کے قیام کا انتظام ایک ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ |