کے مالک تھے اور ایک خاص مسلکِ فقہ کے پابند ہونے کے باوجود تعصبات سے اُن کا دل بالکل صاف تھا۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حضرت مولانا احمد علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ عیدین کی نماز ہمیشہ ان کی اقتداء میں ادا فرماتے حالانکہ خود اُن کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ پھر نہ صرف مولانا غزنوی رحمہ اللہ کی موجودگی میں بلکہ ان کی غیر حاضری اور زمانہ اسارت میں بھی انہوں نے اپنے پورے حلقہ ارادت کے ساتھ منٹو پارک میں عیدین کی نماز پڑھی اور صفِ اول میں بیٹھے۔ مولانا احمد علی رحمہ اللہ سے ان کے تعلقات بہت گہرے تھے اور یہ دونوں بزرگ ایک دوسرے کی انتہائی تکریم کرتے۔ مشترکہ معاملات اور اسلام اور مسلمانوں کے عام مفاد کا کوئی مسئلہ سامنے آتا، تو مولانا غزنوی رحمہ اللہ یا تو خود ان کی خدمت میں تشریف لے جاتے یا ٹیلی فون پر رابطہ پیدا کرتے۔ مولانا احمد علی مرحوم رحمہ اللہ کی وفات کی اطلاع ملی، تو مولانا نے نہایت حزن و ملال کا اظہار کیا اور فرمایا آج دین کا ایک ستون گر گیا ہے اور میرے قریبی رفقاء میں ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو کبھی پُر نہیں ہو سکے گا۔ ساتھ ہی فرمایا: اب ہم بھی چند روز کے مہمان ہیں اور آہستہ آہستہ یہ دور ختم ہو جائے گا۔ مولانا احمد علی رحمہ اللہ کے جنازے پر آئے تو یہ عاجز ان کے ہمراہ تھا۔ راستے میں انہی کی زندگی کے واقعات بیان کر کے روتے رہے۔ مولانا مفتی محمد حسن رحمہ اللہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے مکتبِ فکر سے متعلق حضرات سے بھی ان کے بہت مراسم تھے بالخصوص مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے خلیفہ خاص مولانا مفتی محمد حسن مرحوم سے قلبی لگاؤ تھا۔ مفتی صاحب مرحوم ایک ٹانگ سے معذور تھے، اس لیے ان کو گھر سے باہر نکلنے میں مشکل پیش آتی تھی، لیکن وہ اپنی اس معذوری کے باوجود مولانا کے پاس آتے اور دونوں کے درمیان خاصی دیر تصوف اور دیگر مسائل پر سلسلہ گفتگو جاری رہتا۔ |