منگوائی تھی۔ مولانا نے دیکھی، تو اسے الگ کر لیا، بہت خوش ہوئے اور کہا اسے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ چند روز میں واپس آ جائے گی۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ کے بارے میں اُن کا سلسلہ کلام عام طور پر طویل بلکہ طویل تر ہو جاتا تھا۔ 1957ء میں ہندوستان گئے، تو واپس آ کر بتایا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس ہو رہا تھا۔ میں پارلیمنٹ ہال میں پہنچ گیا۔ مولانا کو اطلاع بھجوائی تو کارروائی چھوڑ کر باہر آئے، بڑی شفقت اور محبت سے ملے، اپنے کمرے میں لے گئے اور دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ 22 فروری 1958ء کو مولانا ابو الکلام رحمہ اللہ کی خبر وفات پہنچی تو بہت مغموم ہوئے۔ ’’الاعتصام‘‘ میں خود ایک مضمون لکھا، غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی اور بہت حزن و ملال کا اظہار کیا۔ داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور محمود غزنوی ستمبر 1945ء میں جنگِ عظیم ختم ہوئی اور حکومت برطانیہ نے آزادی ملک کے سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں سے بات چیت شروع کی اور پھر عام انتخابات کے لیے سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ یہ دور ملکی سیاسیات میں بڑا ہنگامہ خیز تھا۔ آل انڈیا کانگریس کے صدر مولانا ابو الکلام رحمہ اللہ تھے اور پنجاب کانگریس کے صدر مولانا داؤد غزنوی۔ اور دونوں ظاہر ہے بڑے زور دار لیڈر تھے۔ مجھے یاد ہے، اکالی دَل کے لیڈر ماسٹر تارا سنگھ، مولانا داؤد غزنوی کے ایک بیان سے بہت جھنجھلائے اور جواب میں کہا کہ اس ملک کی کانگریس کی سیاست پر دو مولانا قابض ہیں۔ ایک نے پورے ہندوستان کی کانگریس پر قبضہ کر رکھا ہے اور ایک نے پنجاب کی کانگریس پر۔ پنجاب کانگریس کے صدر داؤد غزنوی رحمہ اللہ، محمود غزنوی سے تعلق رکھتے ہیں جس نے پورے ہندوستان کو فتح کر لیا تھا۔ اب داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے سیاسی طور پر ہندو سکھ سب کو اپنا مطیع بنا لیا ہے۔ وسعتِ قلب مولانا غزنوی رحمہ اللہ کی عظیم خصوصیت یہ تھی کہ اُن کا ظرف بہت وسیع تھا۔ انتہائی وسعتِ قلب |