Maktaba Wahhabi

141 - 458
سرحد میں پیر صاحب مانکی پیش پیش تھے۔ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ حلقہ تحصیل چونیاں کی مہاجر سیٹ سے صوبائی اسمبلی کے لیے انتخاب لڑ رہے تھے۔ اس اثناء میں مجھے مولانا کے ساتھ سفر کرنے، ان کو قریب سے دیکھنے اور مختلف لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ ایک دن ہم دونوں باتوں میں جو مصروف ہوئے، تو رات کے دو بج گئے۔ اثنائے گفتگو میں میں نے ان کی گزشتہ سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں سوالات کرنے شروع کر دیے۔ مجلسِ احرار کو چھوڑ کر کانگریس میں اور پھر کانگریس سے مسلم لیگ میں آنے کی وجہ پوچھی۔ مولانا بہت موڈ میں تھے۔ کہنے لگے: ’’جتنا عرصہ میں مجلسِ احرار میں رہا، ذہنی طور پر بہت پریشان رہا کیونکہ مجلسِ احرار نہ پوری طرح کانگریس کی مؤید تھی نہ مسلم لیگ کی۔ کانگریس سے بھی اس کو کچھ شکایات تھیں اور مسلم لیگ سے بھی۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ نہ کانگریس والے اس پر اعتماد کرتے تھے اور نہ مسلم لیگ والے۔ میں اس صورت حال سے پریشان تھا۔ میں ذہنی طور سے کانگریس کی طرف مائل تھا۔ میرے لیے سیاسی اعتبار سے وہ دور بڑا کٹھن تھا۔ اور میری کیفیت ﴿ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَ﴾ کی سی تھی اور میں اپنے رفقائے احرار سے اکثر یہ تذکرہ کرتا تھا۔ بالآخر میں نے احرار سے نکل کر کانگریس میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا۔‘‘ کانگریس سے وہ 1946ء میں الگ ہوئے۔ اس سلسلے میں بڑی تفصیلات بیان کیں جو مجھے اب بھی یاد ہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ میں کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد پہلی دفعہ دہلی میں مولانا ابو الکلام رحمہ اللہ سے ملنے گیا، تو اُن کے چہرے اور اندازِ ملاقات سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ مجھ سے ناراض ہیں۔ اُنہوں نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا، مگر اس میں وہ پہلے کا سا معاملہ نہ تھا۔ پھر عام ملاقاتیوں کے کمرے میں ملاقات کی، حالانکہ اس سے پہلے وہ اپنے خاص کمرے میں لے جا کر مجھ سے کئی قسم کی سیاسی اور علمی باتیں کیا کرتے، نئی کتابوں کا تذکرہ ہوتا، مگر یہ ملاقات ان سب چیزوں سے خالی تھی۔
Flag Counter