Maktaba Wahhabi

140 - 458
اور علمیت کے معترف ہو گئے۔ ایک بجے دوپہر کا عمل تھا۔ میں دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے بڑے دروازے میں کھڑا تھا کہ سامنے سیاہ رنگ کی موٹر کار آ کر رکی۔ اسے سرخ و سفید رنگ اور مضبوط جسم کے ایک صاحب چلا رہے تھے، جنہوں نے سوٹ پہن رکھا تھا۔ مولانا فرنٹ سیٹ پر تشریف فرما تھے۔ وہ صاحب جلدی سے موٹر کار سے نیچے اُترے۔ مولانا کی طرف سے کھڑکی کھولی اور نہایت ادب سے انہیں اُتارا۔ دروازے تک چھوڑنے آئے اور پھر پورے احترام سے سلام کر کے موٹر میں بیٹھے اور چلے گئے۔ مولانا مجھے اپنے کمرے میں لے گئے اور فرمایا: ’’معلوم ہے یہ کون تھے؟‘‘ عرض کیا: ’’جی نہیں۔‘‘ فرمایا: ’’یہ خلیفہ عبدالحکیم تھے۔ میں نے تو آج پہلی مرتبہ ان کو کسی علمی و تحقیقی مجلس میں بحث و مذاکرہ میں حصہ لیتے دیکھا ہے۔ یہ تو بہت معلومات کے حامل ہیں اور ان کا دائرہ علم بڑا وسیع ہے۔‘‘ اِسی طرح شام کی ملاقات میں مولانا محمد حنیف ندوی نے بتایا کہ خلیفہ صاحب، مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی علمی رسائی، درکِ مسائل اور وسعتِ مطالعہ میں رطب اللسان ہیں اور افسوس کرتے ہیں کہ وہ اب تک ان سے علمی استفادہ سے محروم رہے۔ مولانا ابو الکلام رحمہ اللہ سے تعلقات مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ، مولانا ابو الکلام سے بڑے گہرے اور مخلصانہ مراسم رکھتے تھے۔ اس کا اظہار وہ کسی نہ کسی انداز سے اکثر کیا کرتے تھے۔ 1951ء کے صوبائی انتخاب میں مسلم لیگ اور عوامی لیگ کے درمیان سخت مقابلہ تھا۔ حسین شہید سہروردی، مولانا داؤد غزنوی، میاں عبدالباری اور نواب افتخار حسین خاں آف ممدوٹ پنجاب میں عوامی لیگ کے سرگرم رہنما تھے اور صوبہ
Flag Counter