Maktaba Wahhabi

139 - 458
اس سے تیسرے یا چوتھے روز بعد مولانا نے فرمایا: ’’ایڈیٹر صاحب! میں نے مولانا احمد علی صاحب رحمہ اللہ کے کشفِ قبور کے بارے میں آپ کا ادارتی نوٹ پڑھا۔ آپ یہ فرمائیے اگر مولانا احمد علی صاحب اتنے نیک ہو جائیں کہ انہیں کشفِ قبور ہونے لگے، تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘ اِن چند الفاظ سے میرا مسئلہ حل ہو چکا تھا اور میرے پاس سوائے اس کے کوئی جواب نہ تھا کہ بلا تامل عرض کر دوں۔ کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اعترافِ علمیت میں فراخ دلی کوئی صاحب علم اگرچہ فکر و عقیدہ کے اعتبار سے ان کا مخالف ہی ہو مگر وہ اس کی کھلے دل سے تعریف کرتے۔ اس ضمن کا ایک واقعہ لائقِ تذکرہ ہے۔ مئی 1956ء کی بات ہے، پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر مولوی محمد شفیع مرحوم نے یونیورسٹی کی طرف سے چند اہل علم پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کی جس کے ذمے علمی و تاریخی نوعیت کے اہم اور مشکل مسائل کو موضوعِ فکر ٹھہرانا اور ان کی عقدہ کشائی کرنا تھا۔ اس کمیٹی کے رکن مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ بھی تھے اور ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم مرحوم (مؤسس و ڈائریکٹر ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور) بھی۔ اس کمیٹی کے تقرر سے کچھ روز بیشتر پنجاب اسمبلی میں مولانا نے خلیفہ صاحب مرحوم پر سخت اعتراضات کیے تھے اور ان کے افکار و رجحانات کو ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ یہ تقریر اخبارات میں شائع ہوئی تو خلیفہ صاحب مرحوم کو یہ سخت ناگوار گزری تھی۔ خلیفہ صاحب، مولانا کو صرف ایک سیاسی شخصیت سمجھتے تھے اور ان کے علم و فضل سے واقف نہ تھے۔ ادھر مولانا بھی خلیفہ صاحب کے بارے میں اچھی رائے نہ رکھتے تھے اور ان کو ذی علم شخص نہ مانتے تھے، لیکن جب اس کمیٹی کی پہلی میٹنگ ہوئی اور دونوں کے درمیان بعض علمی مباحث میں پنجہ آزمائی کی نوبت پہنچی تو دونوں ایک دوسرے کے مداح
Flag Counter