بہرحال ہر ضرورت مند کے کام آتے۔ ہر شخص کو ہر وقت ملتے۔ اس کی بات غور سے سنتے اور بڑے سے بڑے آدمی سے بھی کام ہوتا تو اس کے کہنے سے انکار نہ کرتے بلکہ کسی کے کام سے ان کو قلبی راحت ہوتی۔ علمائے کرام کی تکریم مولانا کی بےشمار خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ علمائے کرام کی بڑی تکریم کرتے اور ان کا نام ادب و احترام سے لیتے۔ ’’الاعتصام‘‘ میں اختلافی اور مسلکی مضامین کی اشاعت کے سلسلے میں تاکید فرماتے کہ اسلوبِ تحریر مثبت ہونا چاہیے۔ کسی کی مخالفت خدمتِ دین نہیں ہے۔ اگر کسی صاحبِ علم کے فکری رجحانات سے عدمِ اتفاق کا اظہار ضروری ہو تو اس کا نام عزت و احترام سے لیا جائے اور اس کی ذات کو ہدفِ تنقید نہ بنایا جائے، بلکہ دائرہ بحث فقط اصل مسئلے تک محدود رکھا جائے۔ اپنی اسی خوبی کی بناء پر ان کو علماء کے تمام حلقوں اور فقہی مکاتبِ فکر میں مقبولیت و محبوبیت حاصل تھی۔ کشفِ قبور ان کے رجحاناتِ تصوف اور میلانات فقیہہ کے بارے میں ان کے احساسات کس درجہ نازک تھے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیجیے کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا احمد علی مرحوم نے مجلسِ ذکر میں کشفِ قبور کے متعلق کچھ تجربات و مشاہدات بیان فرمائے اور کہا کہ قبر میں میت جن حالات سے دوچار ہو، اس کا انہیں مشاہدہ ہو جاتا ہے۔ میں نے ’’الاعتصام‘‘ میں اس پر ایک شذرہ لکھا اور نہایت ادب سے شرعی نقطہ نظر کی روشنی میں چند سطور میں مولانا کے نقطہ نظر سے اظہارِ اختلاف کیا۔ |