رکھتے ہوں، اُن میں اتحاد و یک جہتی کیوں کر پیدا ہو سکتی ہے۔ يا غربة العلم إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّـهِ لوگوں کے کام مولانا کے پاس بڑے چھوٹے، امیر و غریب اور دیہاتی و شہری بے شمار لوگ آتے اور مختلف کاموں کی تفصیلات بتاتے۔ کسی کو وزیر سے، کسی کو سیکرٹری سے، کسی کو کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سے، کسی کو پولیس سے، کسی کو بحالیات کے افسروں سے، کسی کو ہسپتال سے، کسی کو کالجوں اور سکولوں سے، کسی کو یونیورسٹی سے۔ اس سلسلے میں ٹیلی فون پر بھی متعلقہ آدمی سے رابطہ پیدا کرتے اور بعض دفعہ خود بھی تشریف لے جاتے۔ جس شخص سے کسی کے کام کے لیے کہتے پورے زور سے کہتے اور اس کا باقاعدہ تعارف کراتے۔ اگر کام جماعت کے کسی رکن کا ہوتا تو فرماتے، یہ ہماری جماعت کے آدمی ہیں اور فلاں جگہ کے رہنے والے ہیں۔ ان کا کام ضرور ہونا چاہیے۔ طالب علم کا کام ہوتا تو اس کا تعارف کرانے سے بھی کوئی تکلف نہ محسوس فرماتے: ’’یہ ہمارے مدرسے کا طالب علم ہے۔ یہ بہت پریشان ہے، اس کے کام سے آپ کو اور ہمیں اللہ اجر دے گا۔‘‘ اگر کسی دیہاتی اور غریب آدمی کے کام کے لیے جاتے، تو سفارش کا انداز یہ ہوتا: ’’یہ غریب آدمی ہے اور گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ اللہ سے ڈر جائیے۔ ان کا کام کیجیے۔ بڑے آدمی روپے پیسے اور ذاتی اثرورسوخ کے زور سے کام کرا لیتے ہیں۔ ان کے پاس نہ روپے ہیں نہ اثرورسوخ۔ ان کے کام کا تعلق اللہ کی رضا مندی سے ہے۔ اللہ اِس سے خوش ہو گا۔‘‘ |