Maktaba Wahhabi

134 - 458
نے کہا: اسماعیل! تم بہت عرصے سے ہمارے ساتھ ہو، ہم نے تم کو دیانت دار، محنتی اور امین پایا ہے۔ لہٰذا ہم نے آج سے تمہیں اپنے کاروبار میں شریک کر لیا ہے اور تمہارا ایک خاص حصہ مقرر کر دیا ہے۔ اپنے حصے کی رقم تم نقد ادا نہیں کرو گے، بلکہ تمہارے حصے کے منافع سے وضع ہوتی رہے گی۔ اس کے بعد چند مہینوں میں وہ اس درجہ امیر ہو گیا کہ اسماعیل سے کاکا اسماعیل بن گیا۔ کاکا مدراس کی زبان میں سیٹھ کو کہتے ہیں۔ کاکا اسماعیل نہایت نیک آدمی تھے۔ اُنہوں نے صوبہ مدراس کے ضلع ارکاٹ میں کئی ایکڑ زمین خریدی، اس کو آباد کیا اور اس کا نام محمد آباد رکھا۔ وہاں ایک بہت بڑا اسلامی دارالعلوم قائم کیا جو اب تک کامیابی سے چل رہا ہے اور ہندوستان کے مشہور اسلامی مدارس میں سے ہے۔ مولانا نے بتایا کہ اس دارالعلوم کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں مجھے باقاعدہ دعوتِ شرکت دی جاتی تھی۔ میں جاتا تو کاکا اسماعیل اور ان کے خاندان کے لوگ انتہائی احترام سے پیش آتے اور یہ واقعہ ضرور بیان کرتے۔ ننگے سر نماز ننگے سر نماز پڑھنا مولانا کو ناگوار گزرتا تھا۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔ ایک مرتبہ مسجد چینیاں والی میں بیٹھے تھے کہ ملک محمد رفیق جو اُن کے پرانے عقیدت مند اور حلقہ مسجد چینیاں والی کے رہنے والے تھے، ان کی موجودگی میں مسجد میں آئے اور ننگے سر نماز پڑھنے لگے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے، تو اُن کو بلایا اور فرمایا: ’’ملک صاحب! ایک بات عرض کروں؟ انہوں نے کہا: مولانا فرمائیے۔ کیا ارشاد ہے؟ کہا: ننگے سر نماز نہ پڑھا کریں۔‘‘ جمعِ تقدیم اور جمعِ تاخیر نماز میں جمعِ تقدیم کے بھی وہ قائل نہ تھے۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا اور اس پر انہیں اصرار
Flag Counter