Maktaba Wahhabi

133 - 458
ایک عجیب و غریب واقعہ حضرت الامام مولانا عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے قبولیتِ دعا کے سلسلے کے بہت سے واقعات عوام اور ان کے عقیدت مندوں میں مشہور ہیں۔ اس ضمن کا ایک عجیب و غریب واقعہ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے بھی اور ایک مدراسی بزرگ عزیز اللہ صاحب (گھڑی ساز) نے بھی بیان کیا۔ عزیز اللہ صاحب 1958ء میں اپنے عزیزوں سے ملاقات کے لیے مدراس سے کراچی آئے۔ کراچی سے لاہور آئے۔ اس سفر کا مقصد محض مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور ارکانِ جماعت سے ملاقات تھا۔ وہ ’’الاعتصام‘‘ کے خریدار تھے۔ سیدھے دفتر میں آئے، اپنا نام اور پتہ بتایا۔ میں ان کے نام سے واقف تھا۔ بحیثیت مدیر الاعتصام وہ مجھ سے آشنا تھے۔ میں نے ان کو اعزاز سے بٹھایا اور مدراسی ہونے کی وجہ سے کھانے کے لیے مچھلی پیش کی۔ مولانا اس روز لاہور سے باہر تشریف لے گئے تھے۔ میں نے مولانا کے ساتھ ان کی عقیدت کی وجہ پوچھی، تو اُنہوں نے بتایا کہ ایک عرصہ ہوا مدراس سے دو آدمی چمڑے کی تجارت کے لیے امرتسر آئے ان کے ساتھ ایک مدراسی ملازم بھی تھا، جس کا نام اسماعیل تھا۔ اسماعیل فجر کی نماز روزانہ حضرت الامام مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کی اقتداء و امامت میں ادا کرتا۔ ایک روز اُنہوں نے پوچھا: ’’تم کون ہو؟ کہاں کے رہنے والے ہو؟ اور یہاں کیا کام کرتے ہو؟‘‘ اُس نے جواب دیا: میرا نام اسماعیل ہے، مدراس کا رہنے والا ہوں اور دو مدراسی سیٹھوں کے ساتھ ملازم کی حیثیت سے یہاں آیا ہوں۔ اس کی یہ بات سن کر امام صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے۔ عزیز اللہ نے اور اس کے بعد مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے بتایا کہ اسماعیل کہا کرتا تھا۔ امام صاحب دعا مانگ رہے تھے اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ گویا دولت میری جھولی میں گر رہی ہے۔ نماز و دعا کے بعد وہ واپس گھر گیا تو سیٹھوں
Flag Counter