Maktaba Wahhabi

132 - 458
یہ کوئی معمولی بات نہیں، اس قسم کے معاملات سے کسی شخص کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ عقیدت کی وجہ فیروز وٹواں میں ہمارے اصل میزبان ملک احمد نمبردار تھے۔ اب وہ خود تو فوت ہو چکے ہیں، لیکن اُن کے بیٹے اور خاندان کے دوسرے لوگ مولانا کے خاندان سے اسی طرح عقیدت و احترام کے جذبات رکھتے ہیں۔ ملک احمد بوڑھے آدمی تھے، دراز قامت اور وجیہہ تھے۔ بڑے نیک تھے۔ وہ حضرت الامام مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کے مرید تھے۔ دو تین روز ہی میں مجھ سے مانوس ہو گئے تھے۔ میں نے باتوں باتوں میں ان سے پوچھا: آپ اس خاندان کے حلقہ ارادت میں کیسے آئے؟ اُنہوں نے اس کا جواب ان الفاظ میں دیا: میں اٹھارہ سال کی عمر کا تھا۔ مجھے گنٹھیا کا مرض لاحق ہو گیا۔ والد نے بہت علاج کرائے مگر آرام نہیں آیا۔ کسی نے بتایا کہ امرتسر میں ایک بزرگ مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ رہتے ہیں، وہ دعا کرتے ہیں اور لوگ صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ اس زمانے میں گھوڑی کے سوا اس گاؤں سے امرتسر جانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا، چنانچہ گھٹڑی کی شکل میں والد نے مجھے گھوڑی پر لادا۔ ہم امرتسر مسجد غزنویہ میں پہنچے تو فجر کی جماعت ہو رہی تھی۔ والد نے مجھے اٹھایا اور مسجد کے صحن میں رکھ دیا۔ گھوڑی باہر باندھی اور خود وضو کر کے جماعت میں شریک ہوئے جو بزرگ امامت کرا رہے تھے وہ اس درد و سوز سے قرآن مجید پڑھ رہے تھے کہ دل ان کی طرف کھنچا جاتا تھا۔ نماز کے بعد اُنہوں نے میری طرف دیکھا۔ اُدھر والد نے آگے بڑھ کر درخواستِ دعا کی۔ اُنہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ جیسے جیسے وہ دعا مانگ رہے تھے، یوں احساس ہوتا تھا جیسے میرے جوڑوں کی بندش کھل رہی ہے۔ تین دن ہم وہاں رہے اور اللہ کے فضل سے میں تندرست ہو کر واپس آیا۔ اب جسمانی حالت کے ساتھ ہماری روحانی دنیا بھی بدل چکی تھی۔ اس کے بعد ہم اُن کے مرید تھے اور وہ ہمارے مرشد۔
Flag Counter