Maktaba Wahhabi

131 - 458
پہلا سفر اور اس کے تاثرات اب مجھے دفتر میں رہتے اور خدمات انجام دیتے کئی مہینے گزر چکے تھے اور مولانا مجھ پر بہت مہربان تھے۔ ایک روز میرے کمرے میں تشریف لائے اور فرمایا: ’’مولوی اسحاق! (مجھے ہمیشہ مولوی اسحاق کہہ کر بلاتے تھے) میرے ساتھ ہمارے مریدوں کے ہاں چلیں گے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’آپ ساتھ لے جائیں گے تو میری خوش بختی ہو گی۔‘‘ فرمایا: ’’اچھا تیار ہو جائیے۔ کل پہلی ٹرین سے وار برٹن جائیں گے اور دوسرے دن وہاں سے فیروز وٹواں چلیں گے۔ یہ میرا اُن کے ساتھ پہلا سفر تھا۔ عام طور پر بڑے آدمیوں کے ساتھ سفر بڑی ذہنی اذیت کا باعث ثابت ہوتا ہے۔ وہ اپنے ساتھی کا کوئی خیال نہیں رکھتے اور اس کو صرف اپنا خادم سمجھتے ہیں۔ اس کی ضروریات اور کھانے پینے کا انہیں بالکل کوئی احساس نہیں ہوتا۔ ہم منڈی وار برٹن کے اسٹیشن پر ٹرین سے اُترے تو بہت سے لوگ استقبال کے لیے موجود تھے۔ مولانا نے ٹرین سے اُترتے ہی میرے متعلق فرمایا: ’’ہمارے سیکرٹری صاحب کہاں ہیں؟‘‘ پھر میری طرف مخاطب ہو کر کہا: ’’آئیے مولوی اسحاق! آگے تشریف لے آئیے۔‘‘ اُن کے اِن الفاظ سے استقبال کرنے والے میری طرف لپکے۔ گرمیوں کا موسم تھا، رہائش گاہ پر پہنچے تو غسل کے لیے پانی رکھا گیا۔ مولانا نے فرمایا: پہلے مولوی اسحاق غسل کریں گے میں بعد میں کروں گا۔ کھانے کے لیے بیٹھے تو بار بار کہتے: یہ بوٹی لیجیے۔ یہ چاول کھائیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میزبانوں نے بھی ہر موقع پر میرا پورا خیال رکھا۔ دوسرے روز فیروز پور وٹواں سے لوگ گھوڑے لے کر آئے۔ (اس زمانے میں وار برٹن سے فیروز وٹواں تک سڑک تعمیر نہیں ہوئی تھی) گھوڑوں پر سوار ہونے لگے تو فرمایا: ہمارے سیکرٹری صاحب جوان ہیں، ان کو اچھے گھوڑے پر سوار کرائیں۔ گاؤں میں پہنچے تو وہاں بھی میرا پورا خیال رکھا۔ اس لیے وہاں کے لوگ مجھ سے اِس طرح پیش آئے کہ مجھے شرم محسوس ہونے لگی۔
Flag Counter