تین روز اجلاس جاری رہا اور تمام قراردادیں اور کارروائی مولانا لکھواتے رہے۔ مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی جمعیت کے ناظمِ اعلیٰ تھے۔ وہ بارہا مولانا غزنوی رحمہ اللہ کے پاس آتے اور ضروری مشورے لیتے۔ اس اجلاس میں مولانا غزنوی رحمہ اللہ ایک مرکزی شخصیت تھے۔ نماز کا وقت آیا تو مولانا مدنی رحمہ اللہ نے مولانا سے امامت کی درخواست کی، مگر اُنہوں نے مولانا مدنی رحمہ اللہ ہی کی اقتداء میں نماز پڑھنے کو ترجیح دی۔ ایک ریزولیوشن، جس کا عنوان ہے ’’دردِ سر‘‘ جمعیت علمائے ہند کے دفتر میں ایک بزرگ صوفی نذیر احمد کاشمیری قیام پذیر تھے۔ یہ اگرچہ اُن دنوں جمعیت کے دفتر میں رہائش رکھتے تھے، مگر افکار و خیالات کے اعتبار سے جمعیت کے سخت مخالف تھے اور اس کا برملا اظہار کرتے تھے۔ یہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اور دروازے پر بانس کی چارپائی بچھائے بیٹھے رہے۔ شرکائے اجلاس کے سامنے جمعیت سے اشتراک کے مضر پہلوؤں کی نشاندہی کرنا اُنہوں نے اپنے آپ پر یوں سمجھیے کہ فرض قرار دے لیا تھا۔ اُنہوں نے چار پانچ صفحات پر مشتمل ایک تحریر مولانا غزنوی رحمہ اللہ کو دی اور کہا، یہ ایک ریزولیوشن ہے جو میں اس اجلاس میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ مولانا نے وہ ریزولیوشن لیا، اس کی چند سطریں پڑھیں اور کھڑے ہو کر فرمایا: ’’حضرات! صوفی نذیر احمد صاحب ایک ریزولیوشن پیش کرنا چاہتے ہیں، جس کا عنوان ہے، دردِ سر۔‘‘ مولانا نے یہ جملہ کچھ اس انداز سے کہا کہ سب حضرات کھل کھلا کر ہنس پڑے اور مولانا مدنی رحمہ اللہ بھی اپنی متانت و جلالت قدر کے باوجود ہنسی ضبط نہ کر سکے۔ صوفی صاحب بڑبڑاتے ہوئے باہر نکل گئے اور مولانا اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ |