بن گئے تھے۔ آل مسلم پارٹیز کانفرنس 1945ء میں دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو برطانوی حکومت نے ہندوستان کے سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا اور آزادی وطن کے مسئلہ پر گفتگو شروع ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا گیا۔ سیاسی جماعتیں میدان میں اُتر آئیں۔ 1946ء کے مارچ میں جمیعۃ علمائے ہند نے (اپنے دفتر واقع گلی قاسم جان دہلی میں) انتخاب کے سلسلے میں آئندہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے (مسلم لیگ کو چھوڑ کر) تمام مسلمان سیاسی جماعتوں کا اجلاس بلایا۔ اس اجلاس میں ملک کے مشہور مسلم زعماء نے شرکت کی، جن میں مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ، مولانا مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ، مولانا احمد سعید دہلوی رحمہ اللہ، پروفیسر ہمایوں کبیر (جو بعد میں مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کے سیکرٹری مقرر ہوئے) مولوی فضل الحق، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، خواجہ عبدالمجید (سابق چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) مولانا محمد میاں، مولا بخش سومرو، مولانا عبدالمجید سوہدروی مرحوم، مولانا عطاء اللہ حنیف وغیرہ بے شمار حضرات شریک ہوئے۔ میں بھی اس اجلاس میں شریک تھا۔ اجلاس مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ یہ جمعیت کے صدر تھے اور مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ اس زمانے میں جمعیتِ علمائے ہند کے نائب صدر تھے۔ اجلاس شروع ہوا تو مولانا غزنوی رحمہ اللہ دہلی نہیں پہنچے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ان کا شدید انتظار ہو رہا ہے اور بار بار مولانا مدنی رحمہ اللہ اور دیگر حضرات ایک دوسرے سے بے تابی کے عالم میں پوچھتے تھے کہ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نہیں آئے؟ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان کے بغیر تمام فیصلے ادھورے پڑے ہیں۔ دوسرے روز مولانا غزنوی رحمہ اللہ تشریف لائے۔ سب حضرات ان کے استقبال کو آگے بڑھے۔ مولانا نے تاخیر سے پہنچنے پر معذرت کی۔ ان کے آتے ہی مولانا مدنی رحمہ اللہ نے اپنی مسند چھوڑ دی اور مولانا سے اجلاس کی مسندِ صدارت پر تشریف لانے کی درخواست کی۔ یہ سارا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے ابھی گھوم رہا ہے۔ |