Maktaba Wahhabi

127 - 458
مجمع دور تک پھیلا ہوا تھا اور بڑا شور تھا۔ میں سٹیج کے بالکل قریب تھا۔ اتنے میں سرخ و سفید رنگ کے ایک صاحب نہایت صاف ستھرے کھدر کا لباس پہنے، سفید عمامہ باندھے ہوئے، بہت وجیہہ اور با رعب سٹیج پر نمودار ہوئے۔ لوگوں نے کہا: ’’مولانا ابو الکلام آ گئے۔‘‘ وہ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ تھے۔ اس موقع پر اُنہوں نے جو الفاظ کہے، وہ اب تک میرے کانوں میں گونج رہے ہیں: ’’حضرات! مجھے معلوم ہے، آپ امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کی تقریر سننے کے لیے بے تاب ہیں اور آپ کی یہ بیتابی اور جوش و خروش بالکل صحیح ہے۔ چند منٹ میں مولانا تشریف لا رہے ہیں۔ آپ خاموشی سے مولانا کی تقریر سنیے گا۔ اگر آپ نے خاموشی اختیار نہ کی تو مولانا کے افکارِ عالیہ سے مستفید نہیں ہو سکیں گے۔‘‘ اتنے میں مولانا ابو الکلام رحمہ اللہ تشریف لائے، مولانا نے آگے بڑھ کر اُن کا استقبال کیا۔ دونوں بزرگ ایک ساتھ کرسیوں پر تشریف فرما ہوئے۔ فضا میں نعروں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے کھڑے ہو کر دوبارہ لوگوں کو خاموش رہنے کی تلقین کی۔ جمعیۃِ علمائے ہند کا اجلاسِ لاہور غالباً 1942ء کے مارچ میں جمیعۃ علمائے ہند کا سالانہ اجلاس لاہور میں مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی زیرِ صدارت منعقد ہوا۔ مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ صدرِ استقبالیہ تھے۔ مولانا نے کثیر تعداد میں علماء و زعماء کو دعوت نامے بھیجے۔ ہمارے علاقے کے بھی بہت سے لوگوں کو دعوتِ شرکت دی گئی تھی۔ دعوت نامے پر مولانا کی دستخطی مُہر ثبت تھی جس میں ’’داؤد غزنوی‘‘ کے الفاظ نقش تھے۔ لوگوں کے ساتھ میں بھی لاہور آیا۔ اس میں ایک عجیب واقعہ یا حادثہ ہوا جس کی مختصر الفاظ میں تفصیل یہ ہے کہ مولانا حسین احمد رحمہ اللہ کے خطبہ صدارت کے بعض الفاظ پر پنڈال میں اچانک مخالفانہ نعرے بلند ہونے لگے۔ مولانا مدنی رحمہ اللہ متین اور دھیمے انداز
Flag Counter