Maktaba Wahhabi

126 - 458
ہوئی۔ اُن دنوں میری عمر تیرہ چودہ سال تھی۔ اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کرتا تو ضلع فیروز پور کی جماعت اہل حدیث نے مولانا محمد علی لکھوی (مدنی) کے اہتمام و انصرام میں ایک بہت بڑی کانفرنس کے انعقاد کا انتظام کیا۔ مولانا غزنوی رحمہ اللہ اس کانفرنس کے صدر تھے۔ مجھے یاد ہے مولانا غزنوی رحمہ اللہ لاہور سے بذریعہ موٹر کار فیروز پور تشریف لے گئے تھے۔ جونہی وہ پنڈال میں داخل ہوئے، فضا نعروں سے گونج اُٹھی اور لوگ عقیدت و مسرت کے جذبات سے ان کی طرف دوڑے۔ مولانا نے عشاء کی نماز کے بعد بہت بڑے اجتماع میں تحریری خطبہ صدارت پڑھا۔ سامعین نہایت انہماک و توجہ سے ان کے خیالات و افکار سن رہے تھے۔ یہ بات اب تک میرے ذہن میں محفوظ ہے کہ اُنہوں نے اپنے خطبے میں علمی و سیاسی اعتبار سے فیروز پور کی بعض معروف شخصیتوں کا ذکر کیا تھا، جن میں سے بعض وفات پا چکے تھے۔ اس کے علاوہ مسئلہ فلسطین، اسلامی ممالک کی رفتارِ سیاست اور انگریز کی اس سے دلچسپی کی وجوہ، بین الاقوامی حالات، ملک کی تحریکِ حریت، اس کے سیاسی کوائف، برطانوی حکومت کے ظلم و استبداد کے واقعات، اس برعظیم میں علمائے کرام اور زعمائے اہل حدیث کی انگریز دشمن سرگرمیوں کی تفصیلات بیان کی تھیں اور لوگ کامل توجہ اور غور سے ان کے افکارِ عالیہ سے مستفید ہو رہے تھے۔ اگرچہ ان کی باتیں میرے فہم و شعور کی گرفت میں نہیں آ سکیں، مگر میں اس پر بہت ہی خوش تھا کہ میں نے اتنے بڑے آدمی کی تقریر سنی اور ان کو دیکھا۔ زیارت کا دوسرا موقع مولانا غزنوی رحمہ اللہ کی زیارت کا دوسرا موقع 1939ء میں ملا۔ جنگِ عظیم شروع ہو چکی تھی۔ مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ لاہور تشریف لائے۔ اخبارات میں اعلان ہوا کہ وہ دہلی دروازے کے باہر جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔ مجھے ان کو دیکھنے اور ان کی تقریر سننے کا بے حد شوق تھا۔ لاہور آیا، جلسہ گاہ میں پہنچا تو بہت ہجوم تھا۔ مولانا ابھی جلسہ گاہ میں نہیں آئے تھے۔
Flag Counter