سرخ و سپید رنگ، باوقار و پُرجلال چہرہ، کشادہ پیشانی، فکر و تدبر کی لکیروں سے مزین، ستوان ناک، تیز آنکھیں ذہانت و فطانت کی غماز، سفید براق سی خوبصورت ڈاڑھی، معتدل جسم، میانہ قد، گرجدار اور بارعب آواز، گفتار و کردار میں جلال و جمال کا حسین امتزاج، متانت و سنجیدگی کا پیکرِ دل نواز، چال میں تمکنت، گفتگو میں اعتدال، رائے میں توازن، صاف ستھرے لباس میں تن پوش، وقت کے پابند، قاعدہ و ضابطہ میں بندھے ہوئے، تکلفات سے پاک، تصنع سے نفور، دوستوں کے ہمدرد، ساتھیوں کے خیرخواہ، چھوٹوں پر دستِ شفقت رکھنے والے، علماء کے قدردان، بزرگان دین سے محبت اور تعلق خاطر میں بے مثل۔ علم و فضل میں یکتا، فکر و دانش میں بے نظیر، تحقیق و کاوش میں منفرد، فہمِ مسائل میں یگانہ اور ان کی تعبیر میں درجہ ممتاز پر فائز، وظائف و اوراد کے خوگر، آزادی وطن کے قائد، سیاسیات کے نباض اور اس کے نشیب و فراز پر نگاہِ عمیق رکھنے والے، عالمانہ وقار، صوفیانہ عادات، بزرگانہ اطوار، شاہانہ مزاج، بہادرانہ خصال، مجاہدانہ کردار، شجاعانہ یلغار۔ یہ تھے حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمه الله تعاليٰ رحمة واسعة۔ مولانا کی پہلی تقریر جو میں نے سنی مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی تقریر سننے کی سعادت پہلی دفعہ مجھے 1937ء یا 1938ء میں حاصل |