خدمات انجام دیں، بارہا قید و بند کے مصائب کو برداشت کیا۔ حادثہ جلیانوالہ باغ جس کے باعث پورا پنجاب قبرستان بنا ہوا تھا اور سارے ملک میں ماتم بپا تھا، اس وقت آپ نے انگریزی اقتدار کے خلاف ایک شورِ محشر برپا کر دیا۔ یہ زمانہ اس قدر مہیب تھا اور اُس وقت انگریزی استبداد اس قدر ظلم پر کمر بستہ تھا کہ حق و انصاف کے لیے زبان کھولنا اور آواز بلند کرنا صرف ان ہی لوگوں کا کام ہو سکتا تھا، جو شیروں جیسا دل رکھتے تھے اور جنہیں قدرتِ کاملہ نے اس لیے وجود بخشا تھا کہ وہ ظالم انگریز کو کیفر کردار تک پہنچائیں، ملک کو ان کے مظالم سے نجات دلائیں اور ہندوستان کی پسماندہ اقوام کو غلامی کی ذلت سے نکال کر آزادی و حریت کی عزت سے سرفراز کریں۔ الغرض وطن اور ملی خدمات کے سلسلہ میں مولانا مرحوم کا نام ہمیشہ یاد رہے گا۔ مجھ ناچیز کو حضرت مولانا غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے کئی مواقع ملے اور تقسیم ملک سے قبل کئی مرتبہ آپ کے دیدارِ پُرانوار اور آپ کے خطباتِ عالیہ سننے کی سعادت نصیب ہوئی، مگر 1381ھ میں بتقریبِ حج غالباً 14 ذی الحجہ کی ملاقات تا حیات یاد رہے گی۔ اس سال حضرت رحمہ اللہ حکومت سعودیہ کی دعوتِ خصوصی پر حجاز تشریف لائے تھے اور بحیثیت ایک معزز رکن کے آپ مدینہ یونیورسٹی کی مجلسِ مشاورت میں شرکت فرما رہے تھے۔ مکۃ المکرمہ و حجاز کے دیگر اخبارات میں آپ کی تشریف آوری اور آپ کے خطباتِ عالیہ کا کافی تذکرہ تھا۔ میرے کئی ایک مخلصین نے جب یہ باتیں معلوم کیں تو سب نے بالاتفاق زور دیا کہ حضرت مولانا مدظلہ سے ملاقات کی جائے۔ اس سے بہتر موقع اور نہ مل سکے گا۔ تقسیم ملک کی وجہ سے جو کچھ دوری حضرت مولانا سے ہو گئی، وہ ظاہر ہے۔ معلوم ہوا کہ حضرت مولانا مصری ہوٹل میں قیام پذیر ہیں، چنانچہ میں بعد مغرب اپنے پانچ سات مخلص رفقاء کے ہمراہ مصری ہوٹل کی جانب روانہ ہوا۔ وہاں پہنچنے پر بواب نے بتلایا کہ مولانا کہیں باہر تشریف لے گئے ہیں اور جلد ہی واپس آنے والے ہیں۔ |