وفات کے بعد چینیانوالی مسجد کی خطابت کے فرائض مولانا محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ ادا کرتے رہے۔ مجھے کئی دفعہ مولانا مرحوم کے درسِ قرآن میں شرکت کا موقع ملا۔ الغرض حضرت مولانا مرحوم بے شمار محاسن کا مجموعہ تھے۔ بہت سے کمالات و اوصاف سے قدرت نے اُنہیں نوازا تھا۔ دامانِ نگہ تنگ، گل حسنِ تو بسیار گل چین نگاہ توز داماں گلہ دارد مکتوبات حضرت مجددِ الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ بالعموم حضرت مولانا کے زیرِ مطالعہ رہتے۔ ایک دفعہ فرمایا کہ میں جیل کے زمانہ کا زیادہ وقت مکتوبات کے مطالعہ میں گزارتا ہوں۔ نماز کے بارے میں شیخ مجدد کے جملہ مکاتیب حضرت مولانا نے یکجا ایک مسودہ کی صورت میں جمع فرمائے تھے۔ اس کی اشاعت چاہتے تھے مگر بیماری کی طوالت نے آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔ یادِ رفتگاں حضرت مولانا کی وفات کے سلسلے میں مجھے ایک ایک کر کے وہ تمام بزرگ مجاہد سرفروش غازی اور شہید یاد آ رہے ہیں جنہوں نے اس ملک میں اسلام کی برتری کے لیے اور اپنے ملک کی آزادی کے لیے قید و بند کی مصیبتیں برداشت کیں۔ ان کی ایک طویل فہرست ہے بعض ان میں بڑی بلند ہستیاں ہیں۔ حضرت مولانا اسی سلسلہ کی آخری کڑی تھے۔ اب شاید جو باقی ہیں اور بقیدِ حیات ہیں، انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ان بزرگواروں کے قدردان بھی دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔ کیسی کیسی بابرکت ہستیاں تھیں۔ ان کی صحبتوں میں ایمان تازہ ہوتا تھا۔ وہ سب کے سب مجسمہ اخلاص تھے۔ اللہ کریم ان سب کی قبروں کو نور سے بھر دے۔ ان کی خطاؤں سے درگزر کرے، ان کی قربانیوں کو قبول کرے اور جنت الفردوس میں ان کو جگہ دے۔ دنیا میں حضرت مولانا محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کی ان لوگوں سے رفاقت رہی، بلا واسطہ یا بالواسطہ ان سے مربوط |