فرمایا کہ سلسلہ نقشبندیہ میں میری بیعت اپنے والد حضرت مولانا عبدالجبار رحمۃ اللہ علیہ سے ہے اور حضرت مولانا عبدالجبار رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت اپنے والد حضرت مولانا عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ سے ہے۔ حضرت مولانا عبداللہ رحمہ اللہ کی بیعت شیخِ وقت حضرت مولانا حبیب اللہ قندھاری رحمہ اللہ سے ہے۔ حضرت مولانا حبیب اللہ قندھاری رحمہ اللہ کی بیعت حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ سے ہے۔ مولانا شہاب الدین فاضل دیوبند خطیبِ جامع گورنمنٹ کوارٹرز چوبرجی گارڈنز لاہور نے ایک واقعہ بیان کیا کہ میں جب دیوبند میں زیرِ تعلیم تھا۔ تو ایک دفعہ ایک ماہ کی رخصتوں کے لیے دارالعلوم بند ہو گیا۔ مہتمم دارالعلوم نے طلبہ کو اپیل کی کہ واپسی کے وقت اپنے اپنے علاقوں سے دارالعلوم کے لیے امدادی رقوم فراہم کر کے لائیں۔ میں امرتسر کے سٹیشن پر اتر پڑا اور رات گزارنے کے لیے غزنویوں کی مسجد میں جا ٹھہرا۔ رات کے دو بجے تہجد کی نماز کے لیے ایک شخص مسجد میں آیا۔ خشیت و خوفِ الٰہی کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسو مسجد کی چٹائی پر اس طرح ٹپک رہے تھے، جس طرح بارش کی وجہ سے چھت سے قطرات ٹپکتے ہیں۔ چونکہ مسجد میں اندھیرا تھا، میں نے دیا سلائی جلا کر معلوم کرنا چاہا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ معلوم ہوا کہ مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی رحمہ اللہ ہیں۔ مولانا عبدالجبار صاحب رحمہ اللہ اس وقت نماز ختم کر کے مسجد سے نکل گئے تھے۔ صبح میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوا اور مدعا بیان کیا کہ حضرت میں دیوبند سے آیا ہوں، طالب علم ہوں، اپنے دارالعلوم کے لیے کچھ امداد کا طالب ہوں۔ حضرت مولانا عبدالجبار رحمہ اللہ نے جمعہ کے خطبہ میں چندہ کے لیے اپیل کی، چندہ جمع ہوا اور میرے حوالے کیا۔ حضرت مولانا عبدالجبار رحمہ اللہ کے برادر خورد حضرت مولانا عبدالواحد صاحب غزنوی رحمہ اللہ مدت العمر چینیانوالی مسجد کے خطیب رہے۔ مجھے کئی دفعہ حضرت مولانا عبدالواحد رحمہ اللہ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا موقع ملا۔ بہت رقیق القلب تھے۔ جب قرأت میں ﴿ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴾ پڑھتے تو بے اختیار آواز بھرا جاتی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے عاشق زار تھے۔ ان کی تصنیفات سے انہیں بہت مناسبت تھی۔ مولانا عبدالواحد رحمہ اللہ کی |