عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ایک سیاسی سٹیج پر نمودار ہوئے۔ اس اجلاس میں سب سے آخری تقریریں انہی دونوں حضرات نے کیں۔ دونوں نوجوان، وجیہہ صورت، سحر طراز مقرر اور انقلاب انگیز خطیب تھے۔ اس پہلی صحبت میں ہی دونوں کے زورِ بیان اور نیرنگئ گفتار نے پبلک کا دل موہ لیا۔ ان کی زبانوں میں دریا کی روانی، جلال میں تلواروں کی کاٹ اور جمال میں صبا کی لطافت پائی جاتی تھی۔ زفرق تا بقدم ہرکجا کہ مے نگرم کرشمہ دامن دل مے کشد کہ جا اینجاست اس کے بعد لاہور کے ہر سیاسی جلسے میں دونوں اکٹھے شمولیت فرماتے۔ دونوں میں کچھ اوصاف مشترک تھے۔ دونوں فصیح اللسان، مجاہد، تن ایثار، سراپا اخلاص، سر فروش غازی، جامعِ شرافتِ نسبی و شرافتِ ذاتی، طلیق الوجہ، خوش گفتار، بلند اخلاق، حسین صورت، لطیف سیرت تھے۔ علومِ مذہبی میں دستگاہ اور علومِ عصری سے آگاہ: بہارِ عالمِ حسنش دل و جاں تازہ میدارد بہ رنگ اصحابِ صورت راببو اصحابِ معنیٰ را یہ تھا ان دونوں سرفروشوں کی زندگی کا آغاز، علمی مشاغل سے بھی لگاؤ رکھا اور اسلامی و ملکی سیاست سے بھی گہری دلچسپی رہی۔ ملکی اور وطنی تحریک میں کئی بار جیل گئے، بلکہ دونوں کی جوانی کا زمانہ جیلوں میں کٹا۔ ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش پیدا نہ ہوئی۔ آخری دم تک اپنے اصول پر ڈٹے رہے۔ مولانا محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ کچھ خاص خصائص کے حامل تھے۔ وہ علاوہ خطیب اور مقرر ہونے کے ایک پختہ کار عالمِ دین تھے۔ تفسیر، حدیثِ رجال، فقہ اور تصوف میں کامل دستگاہ تھی۔ ان کی تقریر متین و مدلل، پُرمغز و پُرمعانی، حشو و زوائد سے پاک ہوتی تھی۔ نقشبندی صوفیاء کے سلسلہ سے منسلک تھے۔ ایک دفعہ نیلا گنبد کی مسجد میں اپنا طریقت کا سلسلہ یوں بیان |