ایکٹ کے نام سے ایک بل پیش کیا۔ غیر سرکاری اراکین کی مخالفت کے باوجود یہ بل پاس ہو گیا۔ مسٹر گاندھی کے زیرِ کمان ہندوستان کے تمام سیاسی لیڈروں نے جن میں ہندو، مسلمان سکھ بھی شامل تھے، ستیہ گرہ یعنی عدمِ تعاون کی تحریک جاری کر دی، جس کا اصل مقصد یہ تھا کہ رولٹ ایکٹ کے بل کا نفاذ نہ ہو سکے۔ یہ تحریک پُرامن طریقہ پر جاری نہ رہ سکی۔ دہلی، احمد آباد اور بمبئی میں اس تحریک کی وجہ سے فسادات ہوئے۔ امرتسر اور لاہور دو شہر پنجاب کی سیاسی تحریکات کا مرکز بن گئے۔ امرتسر میں عوام کے ہجوم نے مشتعل ہو کر پبلک عمارتوں کو آگ لگا دی۔ چند ایک انگریز قتل بھی ہو گئے۔ کئی اور مقامات پر بھی فسادات ہوئے۔ گورنمنٹ نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ ہر قسم کے جلسے اور جلوس ممنوع قرار دے دئیے گئے۔ امرتسر میں اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے جلیانوالہ باغ میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا۔ اہل جلسہ پر جنرل ڈائر نے بغیر تنبیہ اور اطلاع کے گولی چلا دی۔ سینکڑوں لوگ مر گئے۔ اس قتل عام نے اہل ہند کے دلوں میں انتہائی بدظنی اور نفرت پیدا کر دی۔ ستیہ گرہ کی تحریک، مارشل لاء کے نفاذ اور جلیانوالہ باغ کے ہولناک واقعات نے بہت زیادہ بے چینی پیدا کر دی۔ دوسری طرف سقوطِ خلافت نے اور تمام مواعید کی خلاف ورزیوں نے مسلمانوں کو برا فروختہ کیا ہوا تھا۔ انگلستان کی حکومت نے ٹرکی کو نہایت ذلیل شرائط پر صلح کرنے کے لیے مجبور کیا تھا۔ سلطانِ ٹرکی ہندوستان کے مسلمانوں کے نزدیک خلیفہ اسلام تھا۔ ٹرکی کی تباہی اسلامی خلافت کی تباہی تھی۔ ان حالات میں ملک میں بیک وقت دو تحریکیں شروع ہو گئیں۔ ایک تحریک کا سربراہ مسٹر مہاتما گاندھی تھا دوسری تحریک خلافت ایجی ٹیشن تھی۔ کانگرس اور مجلسِ خلافت کے اتحاد نے ہندوستان میں قومی وحدت کی صورت پیدا کر دی۔ ملک نے عدمِ تعاون کی تحریک شروع کی۔ اس تحریک کا منشاء یہ تھا کہ انتظامی معاملات میں گورنمنٹ کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے۔ لوگوں کو تلقین کی گئی کہ وہ سرکاری خطابات اور جاگیروں اور انعامات کو واپس کر دیں۔ سرکاری سکولوں کا بائیکاٹ کروایا گیا۔ بدیشی کپڑا چھوڑایا گیا۔ جمعیت العلماء ہند نے اہلِ اسلام |