M Wahhabi
Home
(current)
Deobandi Books
Brailvi Books
Options
Action 1
Action 2
Logout
ڈھونڈیں
Maktaba Wahhabi
4
- 100
فہرست مضامین
×
مضمون تلاش کریں
پیش لفاظ
الشیخ سیدمحمدنذیر رحمۃ اللہ علیہ وہابی لیڈرکی حیثیت سے
تعلیم کی ابتداء :۔ الشیخ ۱۷سال کی عمرمیں تعلیم کےلیے اپنے آبائی وطن ”سورج گڈو“ضلع منگیر سے روانہ ہوکر صوبہ بہار کے”مدینۃ العلم “عظیم آباد پٹنہ محلہ صادق پور محلہ ننموہیان میں شاہ محمد حسین رحمہ اللہ کے پاس پہنچ کرتعلیم شروع کی۔ اس مدرسہ میں مشکوٰۃ اور قرآن مجید کاترجمہ پڑھا۔ شاہ محمدحسین رحمہ اللہ :۔ شاہ محمد حسین رحمہ اللہ بن شاہ معز رحمہ اللہ ۱۲۰۳ھ ۱۷۸۸۔ ۸۹ء میں پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنےچچاشاہ محمد کریم رحمہ اللہ سےحاصل کی، اوران سے بیعت بھی کی۔ بعدمیں اپنےپہلے مرشد کی اجازت سےسیداحمد کے ہاتھ پر بھی بیعت کی۔ ان کی شادی دیورہ (ضلع گیا) کےغلام مجتبیٰ کی دخترسے ہوئی۔ اس شادی کے ذریعہ وہ بھاگپور کےمشہور ومعروف بزرگ ملاشہباز کےخاندان سے
بھی مربوط ہوگئے وہ سیداحمد کے اولین خلفامیں سے تھے۔
سندخلافت:۔ وہ نایاب سند جوسید احمد رحمہ اللہ نے ان کو دی تھی اس کی ایک نقل اب بھی موجود ہے۔
شاہ محمد حسین کی خدمات:۔ مندرجہ بالا اقتباس کی روشنی میں آپ کو سید احمدصاحب سے جو ہدایات ملیں آپ نے ان پرعمل درآمد شروع کیا۔ انہوں نے شہر کی متعدد مساجد میں نما زجماعت اور خطبہ باقاعدہ جاری کردیا۔ انہوں نے شہر کی بہت سی غیرآباد مساجد اورخاص کر مسجد ننموہیاں کوآباد کیا۔ و ہ سید احمد رحمہ اللہ کی تعلیمات کےخاص خاص پہلوؤں کی تبلیغ وتوضیح کیاکرتے تھے اور ان میں سے بعض پرعمل کرکےذاتی مثالیں قائم کرتے۔
شاہ محمد نذیر دہلوی رحمہ اللہ اور شاہ محمد اسحٰق رحمہ اللہ کی جانشینی
مولوی رحمت صاحب کیرانوی :۔ ”مولوی صاحب موصوف مغربی یو۔ پی ضلع مظفرنگر کے ایک قصبہ ”کیرانہ“ کےباشندے تھے۔ ان کے ایک رفیق ڈاکٹر نذیر خاں اکبر آبادی عیسائی مذہب کےمتعلق بہت وسیع اور گہری معلومات رکھتےتھے۔ انہی ڈاکٹر صاحب کی رفاقت میں مولوی رحمت صاحب کو عیسائیت پر کافی عبورحاصل ہوگیا، پادریوں سے بعض اہم مناظرے کئے اور ان کے رومیں کتابیں لکھیں۔ “ <mfnote>
مولانا عبداللہ مادقپوری :۔ مولانا عبداللہ مادقپوری کے دور اقتدارمیں جنگِ امبیلا ۱۸۶۳ء کا واقعہ پیش آیا۔ جس کی وجہ سے دوست اور دشمن کی تمیز ہوگئی۔ معرکۂ امبیلا ۱۸۶۳ء :۔ مجاہدین اور انگریزوں کی لڑائیوں میں درّہ امبیلا کی لڑائی کوبڑی اہمیت حاصل ہے۔ برطانونی افسروں نے بڑے طنطنے کے ساتھ چڑھائی کی تھی، مگر واقعہ یہ ہے کہ انہیں اپنی مہم میں سخت ناکامی ہوئی۔
پہلامقدمہ سازش انبالہ ۱۲۸۰ھ ۱۸۶۴ء :۔ ۱۸۶۴ میں یہ مقدمہ قائم کیاگیا جس میں گیارہ ملزم تھے۔
دوسرا مقدمہ سازش پٹنہ :۔ ۱۸۶۵ء میں دوسرا مقدمہ قائم کیاگیا جس میں خاص کر مولانا احمد اللہ صادقپوری کو نشانہ بنایاگیا اور جلاوطنی کی حالت میں جزائر انڈیمان میں تقریباً ۱۲۹۸ ء میں وفات پائی۔ تیسرا مقدمہ سازش مالدہ :۔ ۱۸۷۰ء میں مالدہ اور راج محل کےمقدمات قائم کیے گئے۔ ۱۸۷۰ء میں اوّل مقدمہ مولوی امیر الدین کےخلاف قائم کیاگیا۔ مولوی امیر الدین کون تھے ؟ ان کی تفصیل یہ ہے کہ مولانا ولایت علی رحمہ اللہ کےخلیفہ عبدالرحمٰن لکھنوی نے مالدہ میں تبلیغ کی اور وہیں آباد ہوگئے۔ ان کے رفقاء کار میں ایک صاحب منڈل نامی تھے۔ منڈل کو ۱۸۵۳ء میں گرفتار کیاگیا لیکن بعد میں رہاکردیے گئے۔ منڈل کے برخوردار امیر الدین نے مجاہدین کی خدمت کی ذمہ داری قبول کرلی جس کی وجہ سے ان پر مقدمہ قائم کیا گیاا ور حبس دوام بعبور دریائے شور اور املاک کی ضبطی کی سزاہوئی۔ مارچ ۱۸۷۲ء کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملا صرف دس سال کی جلاوطنی کے بعد موصوف وطن واپس آگئے۔ چوتھا مقدمہ سازش۔ ۱۸۷۰ء میں راج محل صوبہ بہار میں ابراہیم منڈل کےخلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیاگیا۔ ابراہیم منڈل نے اہل صادق پور کے ہاتھ پر بیعت کی تھی
پانچواں مقدمہ سازش :۔ مارچ ۱۸۷۱ء میں قائم کیاگیا۔ اس مقدمہ میں کل سات ملزم تھے۔ (۱) پیر محمد (۲) امیرخان ( ۳) حشمداد خاں (۴)مبارک علی (۵) تبارک علی (۶) حاجی دین محمد (۷) امین دین۔
نذیر حسین محدث دہلوی :۔ نذیر حسین تفسیر اور فقہ اسلامی کے مشہور استاد شروع میں سورج گڑھ ضلع منگیر کے متوطن تھے بعد میں دہلی میں جابسے۔ شروع میں سیدا حمد سے ان کی ملاقاتوں نے ان کو کچھ متاثر اور اس تحریک کا ہمدرد بنایاہوگا گو اس کا کوئی یقینی ثبوت نظر نہیں آتا۔ مگر امیدعلی کے بیان نے نذیر حسین کو یہ کہہ کر صاف صاف ملوث کردیا کہ فیروز شاہ کے قاصد آئےتھے تووہ بھی موجود تھے۔ نذیر حسین کے گھر کی تلاشی سے بہت سے مشتبہ قسم کےخطوط نکلے۔ ان میں سے بعض وہابیوں جیسے جعفرتھانیسری اور مبارک علی عظیم آبادی کےخطوط بھی نذیر حسین کے نام تھے۔ ایک خط نذیر حسین کالکھا ہوا سرحد کے وہابی سردار عبداللہ کے نام بھی تھا۔ ریلی نے ضابطہ ۳ کےتحت ان کی گرفتاری کی سفارش کی لیکن وہ ایک مشہور ومعروف عالم تھے، اور ان کے خلاف کسی اطمینان بخش شہادت کے بغیر حکومت اس انتہائی اقدام سے منامل تھی۔ حکومت نے اس معاملے کی رپورٹ حکومت پنجاب کو( جس کے ماتحت خطۂ دہلی تھا) بھیج دی اور درخواست کی کہ وہ جواقدام مناسب سمجھے کرے۔ حکومت پنجاب نے ان کو احتیاطی طور پر چھ ماہ جیل میں قید رکھنے کاحکم نافذ کیا مگر اس کے بعد فوری رہا کردیا۔ <mfnote>
وہابی لیڈر الشیخ سید محمد نذیر حسین بہاری پر جیل میں کیاگزری اس کےمتعلق امام ابویحییٰ خاں نوشیردی کی تحقیق مندرجہ ذیل ہے۔
تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیاگیا:۔ تاریخ گواہ ہے کہ امیر المومنین خلیفۃ المسلمین امام المتقین سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان مسلمانوں سے جو مرتد ہونے کےبعد دوبارہ مسلمان ہوئے تھے۔ جہاد میں کسی قسم کی بھی اعانت حاصل کرنے سے منع کردیاتھا، امیر المومنین خلیفۃ المسلمین امام المتقین سیدناحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے نومسلموں کوصرف سامان رسد پہنچانے کی اجازت دی۔ اس کے امیر المومنین خلیفۃ المسلمین امام المتقین شہید اعظم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نومسلموں کوجہاد میں حصّہ لینے کی اجازت دے دی جس کا نتیجہ آپ کی شہادت کی شکل میں نمودار ہوا۔
میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے سفر حج میں پیش آمدہ واقعات کا جائز ہ
مکّے میں علمائے اہل حدیث پرقیامت :۔ تفصیل یہ ہے کہ اس زمانے میں ہندوستان میں وہابیوں کی جانب سے گورنمنٹ ہند نہایت برافروختہ تھی اور ان کی جماعت کوسخت خطرناک پولٹیکل جماعت سمجھتی تھی۔ جنہوں نے اپنی تحریک کی بنیاد مسئلہ جہاد پر رکھی تھی اور سکھّوں سے عملاً جہاد کیاتھا۔ مولانا اسماعیل کے بعد سید صاحب کی جوجماعت سرحد پر گئی تھی وہ مولانا صادق پُوری کی امامت میں ازسرِنوقائم ہوئی اور اس سے انگریزوں سے دوتین مرتبہ مڈھ بھیڑ ہوئی تھی اور گورنمنٹ کوخیال ہوگیاتھا کہ اب یہ جماعت انگریزوں سے جنگ کرنا چاہتی ہے۔ اس کےعلاوہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ غدر میں سپاہیوں نے جو فتوے مرتب کیے تھے، اُن پر بعض وہابی علماء کی بھی مُہریں تھیں۔ ایک بڑا سبب یہ تھا کہ یہ جماعت ملک میں نہایت قلیل تھی اور سوادِاعظم
مولانا آزاد رحمہ اللہ کی حق گوئی :۔ لیکن ہندوستانی عُلمائے مقیمین نے یہ فتنہ اٹھا یا اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ اس میں سب سے بڑا حصّہ والدمرحوم کا تھا، اُن کے تعلقات، شریف اور قسطنطنیہ، دونوں سے گہرےتھے۔ انہی نےعلمائے حجاز اور شریف کومطلع کیا کہ یہ جماعت باعتبارِعقائد، محمد بن عبدالوہاب کی جماعت ہے اور ہندوستان سےخاص اس لیے آئی ہے کہ یہاں اپنی تحریک پھیلائے۔ ثبوت میں تقویۃ الایمان اور بعض دوسری کتابوں کے حسبِ حال مطالب عربی میں ترجمہ کرکے شائع کردیے۔
عبرت:۔ اس موقع پر نہایت عبرت انگیز بات یہ ہے کہ جب اسلامی حکومت اور جوار بیت اللہ میں ایک مسلمان جماعت عْلماء پر یہ ظلم وستم ہورہاتھا تواُس وقت اگر اُن کوکوئی پناہ مل سکتی تو انہی کفار کے دامن میں جن سے بھاگ کر یہ آئے تھے ان میں سے بعض احباب ان کی گرفتاری کے بعد ہی جدّہ آگئے تھے اور برٹش قونصل کوخبر دی گئی کہ برٹش رعایا پر یہ عذاب نازل ہورہاہے۔ برٹش قونصل نے اس معاملے کوقابل مداخلت خیال کیا اور گورنر مکّہ کو مراسلت بھیجی کہ برٹش رعایا کی گرفتاری بجُز فوجداری جرائم کے اور کسی وجہ سے نہیں ہوسکتی، اور اگر انہیں چوبیس گھنٹے کے اندرنہ چھوڑدیاگیا توبرٹش گورنمنٹ اس معاملے کو باب عالی کے رُوبرو پیش کرے گی۔ تب گورنر نے شریف پر زور ڈالا اور تعزیر کی کاروائی وقوع میں آنے سے پہلے ہی یہ لوگ مجبوراً چھوڑدیے گئے، لیکن انہیں یہ سزا دی گئی کہ سب کے سب اکتیس آدمی خارج البلد کردیے گئے اور حجاز کی پولیس نے انہیں جدّے میں لاکر برٹش قونصل کےحوالے کردیا۔
”وہابیت کا رد“ اسی زمانے میں علمائے مکّہ نے والدمرحوم سے کہاکہ وہابی عقائد کی کتابیں اردومیں ہیں، جنہیں وہ سمجھ نہیں سکتے، نیز نجدی عقائد کا بھی ردکافی طور پرنہیں ہواہے۔ شیخ احمد وحلان نے اس بارے میں خاص طور پر زور دیا۔ اور اسی طرح والد مرحوم نے ایک کتاب نہایت شرح وبسط کے ساتھ لکھی جواُن کی تصانیف میں سب سے بڑی ہے۔ ا س کانام ’’نجم <mfnote> ۔۔ الرجم الشیاطین“ ہے۔ یہ دس جلدوں میں ختم ہوئی ہے او ر ہر جلد بہت ضخیم ہے۔ اس کی ترتیب اس طور پر ہے کہ ایک سوچودہ مسئلے مابہ النزاع منتخب کیے ہیں، اتنی تعداد جزئی جزئی اختلافات کے استقساء کی وجہ سے ہوگئی ہے۔ ہر مسئلے کے لیے ایک باب قائم کیاہے اور اس میں پہلے قرآن سے، پھر احادیث سے، پھر اقوال علماء سے رَدکا التزام
کیاہے۔ اس طرح کتاب، ایک سوچودہ ابواب پر مشتمل ہے، ا یک جلد صرف مقدمے میں ہے اور چونکہ وہ ان مسائل کے متعلق نہیں ہے اس لئے معلومات کے اعتبار سے بکار آمد ہے۔ اس میں اُصولی طور پر عقائد اہلسنّت پر بحث کی ہے اور ہر طرح کے اختلافات کوختم کرکے اپنے مسلک کوبہت شرح وبسط کے ساتھ لکھاہے۔
مولانا رحمت اللہ کیرانوی :۔ مولوی صاحب موصوف مغربی یوپی مظفر نگر کے ایک قصبہ ”کیرانہ“ کے باشندے تھے۔ ان کے رفیق ڈاکٹر وزیر خاں اکبر آبادی عیسائی مذہب کے متعلق بہت وسیع اور گیری معلومات رکھتےتھے۔ انہی ڈاکٹر صاحب کی رفاقت میں مولوی رحمت اللہ صاحب کو بھی عیسائیت پر کافی عبور ہوگیا۔ پادریوں سے بعض اہم مناظرے کئے اور ان کے رَد میں کتابیں لکھیں۔
حاجی امداداللہ مہاجر مکّٗی صاحب :۔ مذکورہ کمیٹی کے ارکان میں دوسرے ذی اثر حاجی امداداللہ ساحب تھانوی ثم مکّی کانام شامل ہے۔ جن کےمتعلق مولانا عبیداللہ سندھی کی رائے پیش کی جاتی ہے۔
۳۔ مولوی عبدالقادر بدایونی :۔ مذکورہ کمیٹی کے تیسرے اہم رکن مولوی عبدالقادر بیان کیے گئے ہیں۔ موصوف کے والد فضل رسول بدایونی صاحب تھے۔ بدایونی صاحب کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں :
۴۔ مولانا خیر الدین :۔ کمیٹی کےچوتھے رکن مولانا خیر الدین تھے، یہ مولانا ابواکلام آزاد مرحوم کے والد بزرگوار تھے۔ مولاناخیر الدین صاحب کے تعلّقات شریف مکّہ ہی سے نہیں تھے بلکہ وہ سابقہ تین ارکان سے زیادہ اثر رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ موصوف اہل حدیث کے کٹرمخالف ہونے کے ساتھ ساتھ وہ
ایک لمحہ کےلیے بھی اہل حدیث کے ساتھ رواداری کےحق میں نہیں تھے۔
مکےمیں مولانا نذیر حسین رحمہ اللہ کی گرفتاری: زمانۂ قیام مکہ میں ایک اور قابل ذکر واقعہ پیش آیا۔ یعنی مولانا سیّد حسین مرحوم، ہندوستان میں درس حدیث کے آخری مرکز تھے۔ <mfnote> انہوں نے جب سفر حج کا ارادہ کیاتو ان کو خیال پیدا ہواکہ مخالفین مکہ میں ایذا رسانی کی کوشش کریں گے اس لیے کہ علماء وہابیہ کے ساتھ وہاں پہلے جوسلوک ہواچکاتھا اُس سے باخبر تھے۔ اور اب حجاز کی یہ حالت ہورہی تھی کہ بلاتقیّہ کوئی وہابی محفوظ طور پر نہ رہ سکتاتھا۔ شیعہ وخوارج توعلانیہ جاتے اورحج کرتے کوئی روک پیش نہ آتی۔ مگر وہابیہ کےلیے یہ موقع نہ تھا۔
مکائد وہابیہ :۔ یہ بیان علمائے حجاز کے لیے ایک حد تک تشفی بخش ہوجاتالیکن جیساکہ والد محترم کہاکرتےتھے ، و ہ ان باتوں کو وہابیوں کے ”مکائد“تصور کرتےتھے کہتےتھے کہ میں نے یہ مکائد نہ چلنے دیے اور کہا تفصیلاً بتاؤ کہ آئمہ اربعہ میں کس امام کی تقلید کرتے ہو؟ اور فلاں فلاں مسائل میں تمہارا کیااعتقاد ہے؟ اس پر انہوں نے تیسری مجلس میں ایک تحریر پیش کی جس میں لکھا تھا کہ آئمہ اربعہ کی تقلید کوفرائض وواجبات شرعیہ کی طرح فرض نہیں سمجھتا، لیکن عوام کےلیے اور اُن کے لیے جوفقہ وحدیث میں نظر نہیں رکھتے ہیں، جب تک کہ قرآن وحدیث کے خلاف کوئی صریح بات پیش نہ آئے ، کتب ِ فقہ متداولہ پر عمل کرنے کو مستحسن سمجھتا ہوں اس کےعلاوہ فلاں فلاں عقائد اور الزامات جومیری طرف منسوب کیے گئے ہیں، میں اُن سے بَری ہوں اورحلفیہ کہتا ہوں کہ میرے عقائد وہ نہیں ہیں۔
میاں صاحب کی پوزیشن :۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ مولانا نذیر حسین مرحوم نے اس تحریر میں اُن اصولوں کےخلاف کوئی بات نہیں کہی ہے جواہل حدیث کے اصول سمجھے جاتے ہیں، نہ تقلید شخصی کے وُجوب کوماناہے۔ نہ کتب حدیث پر کتب فقہ کی ترجیح کو، صرف براء ت واظہار ہے، تاہم یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اُن کے مخالفین نے مکّے سے اس بات کی خبریں بھیج دیں کہ انہوں نے وہابیت سے توبہ کرلی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ خود والد مرحوم باوجود ان تمام تر تفصیلات کے بیان کرنے سے کہاکرتے تھے کہ مولانا نذیر حسین رحمہ اللہ نے توبہ کرلی، ا ور زور دیتے تھے کہ انہوں نے تقلید شخصی کو مستحسن تسلیم کرلیا، حالانکہ یہ جماعت بھی عوام کے لیے ہمیشہ تقلید کوضروری بلکہ فرض ٹھہراتی ہے بحث توصرف التزام وتعیّن میں ہے نہ کہ نفس تقلیدمیں۔ <mfnote>
تاریخی تحقیق
سرکاری خطابات
اوّل :۔ وہ افراد جن کو حکومت برطانیہ نے اپنی وفاداری کی وجہ سے خطابات سے نوازا
ان کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن اس مقام پر دواشخاص کے نام پیش کئے جاتے ہیں۔ سرسید احمد خاں رحمہ اللہ :۔ سرسید احمد خاں ان افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے ۱۸۵۷ء سے قبل اور بعد ہر حال میں برطانوی حکومت سے وفاداری کی بلکہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے دوران بھی برطانوی حکومت کے وفادار رہے۔ لیکن قوم اور اہل وطن کی فلاح وبہبود کا ہمیشہ خیال رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کےبعد بالعموم اہل ہند اور خاص کر مسلم قوم جس طرح ظلم وزیادتی کے شکنجہ میں جکڑی جاچکی تھی ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے ”ہمارے ہندوستانی مسلمان “نامی کتاب لکھ کر آگ پر تیل کاکام کیا۔ اس وقت سرسید احمد خاں نے ”اسباب وبغاوت ہند“ تصنیف کرکے عام ہندو مسلمانوں پرا ور خاص کروہابیوں پر وہ احسان ِ عظیم کیاجس کو قیامت تک فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ جزاء اللہ خیرا الجزاء۔
حافظ محمد احمد ولد مولانا قاسِم نانوتوی :۔ حافظ محمد احمد ولد قاسِم ُ العلوم والخیرات مولانا قاسم نانوتوی ہیں جن کو حکومت برطانیہ کی طرف سے شمس العلماء کا خطاب ملا، جومہتمم درالعلوم دیوبند ہونے کی وجہ سے نمایاں حیثیت کے مالک تھے۔ اس کے علاوہ نہ تو موصوف کی کوئی علمی خدمات ہیں اور نہ ہی کسی تحریک سے منسلک تھے۔ برطانوی حکومت کی وفاداری میں موصوف نے چند نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ وہ ذیل میں تحریر کی جاتی ہیں۔
قسم دوم :۔ اس گروہ میں وہ افراد شامل ہیں جن کو برطانوی حکومت نے خطابات سےضرور نوازا لیکن حکومت کی وفاداری سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھابلکہ صرف علمی وادبی خدمات کی وجہ سے ان کو اعزازات عطا کیے گئے حقیقت میں ان افراد نےحکومت کے اعزازات کوتسلیم کرکے ان عزائم کامقام ارفع واعلیٰ کردیا۔ علامہ شبلی نعمانی :۔ اہل علم میں علامہ شبلی نعمانی کوجومقام حاصل ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کیونکہ موصوف نے ادب، تاریخ اور مذہب کی جوخدمات کی ہیں ان کی وجہ سے اپنے ہمعصروں میں سب سے سبقت لےگئے جب تک آپ کی تصانیف موجود ہیں۔ اہل علم حضرات ان سے استفادہ کرتے رہیں گے۔ آپ کی تصانیف میں سب سے زیادہ مشہور سیرت النبی ہے اگرچہ اس کی تکمیل آپ کے ارشد تلمیذ مولانا سید سلیمان ندوی نے کی، المامون، الغزالی ، الفاروق، شعر العجم اور الکلام میں اہل علم کے نزدیک مقبول ہیں۔
علامہ شبلی نعمانی کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی سرسید احمد خاں کی پالیسیوں کے حامی تھے۔ اسی وجہ سے آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی کوخیر باد کہہ کر وہاں سے چلے گئے اور ندوہ میں جاکر علمی خدمات انجام دیتے رہے۔
قسم سوم:۔ اس جماعت میں وہ افراد شامل ہیں جن کی علمی وادبی، ثقافتی اور رفاعہ عامہ کی خدمات اظہر من الشمس ہونے کےعلاوہ کسی نہ کسی تحریک سے منسلک ضرور تھے۔ جیساکہ مثالوں سے ثابت ہوگا۔ شہزادہ غلام محمّد :۔ مشہور ومعروف مستشرق گارساں دتاسی شہزادہ غلام محمد کےمتعلق تحریر کرتا ہے۔ <mfnote>
شیخ الکل میاں صاحب:۔ مولاناسّد نذیر حسین محدث دہلوی کےمتعلق مولاناعبیداللہ سندھی تحریر کرتے ہیں۔ <mfnote>
محمدحسین لاہوری:۔ آپ کا شمار شیخ الکل رحمہ اللہ کےخاص تلامیذہ میں ہوتاہے آپ پر بھی انگریزوں کی وفاداری کا الزام لگایاجاتاہے جس کی بنیاد ”الاقتصاد فی مسائل الجہاد“ نامی کتاب۔ مولانا مسعود عالم ندوی سے لے کر آج تک ہر شخص لکھتا ہے اور کہتاہے کہ ”مذکورہ کتاب“ منسوخ جہاد پر لکھی گئی۔ اس لیے ہم موصوف کےحالات تفصیل سے ضبط تحریر میں قلمبند کریں گے۔
سیروسوانح مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ
پیدائش اور نام :۔ محمد حسین بن عبدالرحیم عرف رحیم بخش قانون گوشیخ کنیت ابوسعید۔ تاریخ پیدائش ۱۷/محرم ۱۶۵۲ھ مطابق ۱۰فروری ۱۸۴۱ء مقام بٹالہ ضلع گورداس پور(مشرقی پنجاب ) تعلیم :۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کرنے کےبعد آپ نے علی گڑھ، لکھنؤ اور دہلی کا سفر کیا۔ دہلی میں مولانامفتی صدر الدین آزردہ ( متوفی ۱۲۸۵ھ) مولاناگلشن علی جونپوری اور مولانا نورالحسن کاندھلوی غیرہ سے عُلوم معقول ومنقول فقہ اور اصول فقہ وغیرہ کی تکمیل کرکے ۱۲۸۱ھ میں سندِ فراغت حاصل کرلی۔ تحصیل حدیث :۔ اس کےبعد شیخ الکل رحمہ اللہ مولانا سید محمد نذیر حسین محدث بہاری ثم دہلوی کی خدمت میں صحاح ستہ۔ مؤطاامام مالک رحمہ اللہ اور مشکوٰۃ پڑھی۔ ۱۲۸۲ء میں شیخ الکل رحمہ اللہ نےجب سند عنایت کی تواس میں خاص کر یہ الفاظ تحریر فرمائے :” ان له زیادۃ صحبة معی مزیداختصاص بی علی غیرہ من الطلبة “ وطن واپسی :۔ تحصیل علم کےبعد وطن واپس آکر شیخ الکل رحمہ اللہ کےطریقے کےمطابق فجر کی نماز کےبعد قرآن مجید کا درس شروع کیاجس کی دُور دُور تک آپ کی شہرت ہوگئی۔ تدریس :۔ ایک عرصے کےبعد لاہور کی مسجد چنیانوالی میں درس تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ جہاں سے تشنگان علم خوب سیراب ہوجاتے۔
اشاعَة السُّنَّة کا اِجْراء :۔ ۱۲۹۴ھ ۱۸۷۷ء میں ماہنامہ اشاعۃ السنّۃ النبویہ جاری کیاجس کامقصد اسلام اور اہلحدیث مسلک کی اشاعت تھا۔ موصوف کی تحریریں تجرعلمی اور تحقیقات بدیعہ کی آئینہ دار ہوتی تھیں۔ مشکل بحث کوآسان الفاظ میں لکھنے میں آپ کو کمال حاصل تھا۔
تصانیف :۔ مولانا ابوسعید محمد حسین مرحوم کی تصانیف کی تعداد بہت زیادہ ہے جو”اشاعۃ السنۃ‘‘ کی فائلوں میں محفوظ ہیں۔ تاہم مخالف ومعاندین اہل حدیث ان کی ایک تصنیف ”الاقتصاد فی مسائل الجہاد“ کی وجہ سے ان کو نشانۂ ہدف وملامت بناتے رہتے ہیں۔ اس لیےضروری ہے کہ اس وقت کےحالات قدرت تفصیل کے ساتھ بیان کئے جائیں۔
مکہ کےعلماء کرام کا فتویٰ :۔
جواب۱ :۔ الحمد للّٰہ رب العالمین۔ رب زدنی علما جب تک اسلام کے بعض مخصوص احکام جاری ہیں وہ دارالاسلام ہے۔ اللہ سب کچھ جاننے والااور بے عیب ہے اور اللہ سب سے بڑا ہے۔
جواب ۲ :۔ نحمدہ ونصلی علی رسوله الکریم والہ واصحابہ وذریاتہ اجمعین اھدناالصراط المستقیم )
جواب۳:۔ سب تعریف اللہ کےلیے ہے جوایک ہے اور خدا میرے علم کوبڑھائے یہ امر وسوکی شرح میں مرقوم ہے کہ دارالاسلام اس وقت تک دارالحرب نہیں بن جاتا جب وہ کافروں کے ہاتھ میں چلاجائے بلکہ اس وقت دارالحرب بنتا ہے جب اس میں اسلام کے تمام یابہت سے احکام جاری نہ رہیں۔
شمالی ہندکےعلماء کا فتویٰ :۔ استفتاء :۔ مترجمہ سیدامیرحسین پرسنل اسسٹمٹ کمشنر بھاگل پور۔
مہریں :۔ مولوی محمد علی لکھنوی، مولوی عبدالحی ٔ لکھنوی۔ مولوی فیض اللہ لکھنوی، مولوی محمد نعیم لکھنوی، مولوی مفتی اسد اللہ لکھنوی، مولوی رحمت اللہ لکھنوی، موولی قطب الدین لکھنوی <mfnote> ، مولوی لطف اللہ رامپوری۔ مولوی غلام علی رامپوری۔ محمڈن سوسائٹی کلکتہ کا فیصلہ :۔ شمالی ہندوستان کے علماء کے فتویٰ کی مخالفت کرتے یعنی یہ کہ ”ہندوستان دارالاسلام ہے“ مولوی کرامت علی یوں رقم طراز ہیں :۔
جامعہ اہلحدیث میانصاحب کا قیام
ء حضرت نانوتوی کا ارشاد :۔ مولانا احمد سعید اکبر الہ آبادی لکھتے ہیں لیکن چونکہ رسالہ کا اصل موضوع بحث دارالحرب میں”سودی لین دین“ ہےاس بنا پر مولانا نے اس پر بڑی سیر حاصل بحث کےضمن میں ایک بڑی دلچسپ بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ ”اول توہندوستان دارالحرب نہیں دارالاسلام ہے لیکن اگر دارالحرب ہے بھی تو مسلمان کےلیے حسب روایات فقیہ پر کہاں جائز ہے کہ وہ دارالحرب میں قیام کرکے سود کھاتا رہے بلکہ حکم یہ ہے کہ سود دارالحرب میں لےاور اسے برتے دارالاسلام میں جولوگ ہندوستان کودارالحرب قراردے کر اس میں سودی لین دین کوجائز قرار دیتے ہیں مولانا نانوتوی ان پر ایک نہایت لطیف قسم کا طنز کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
محمد ابراہیم :۔ مولانا محمد ابراہیم رحمہ اللہ وبرکاتہ کاشمار شیخ الکل رحمہ اللہ کے ارشد تلامذہ میں ہوتاہے لیکن بعض مقالہ نویس موصوف کو سرسید احمد خاں کا ہمنوا ہم پلہ ثابت کرتے ہیں۔ یہ بات واقعات کےخلاف ہے کیوں کہ ۸۱۔ ۱۸۸۰ء میں موصوف نے کوشش کی کہ شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ دہلوی کے فتوے کہ ”ہندوستان دارالحرب ہے‘‘ کہ ا س کی اشاعت کرکے دوبارہ بغاوت کرادی جائے۔ افسوس اس میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن آپ کی یہ کوشش برابر جاری
عبدالعزیز رحیم آبادی :۔ مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے شیخ الکل رحمہ اللہ کی طرح وہابیوں کے مشہور لیڈر تھے۔ جب مولانا عبدالرحیم صادق پوری رحمہ اللہ ”تذکرہ صادقہ“ کو انگریزوں نے عمر قید کی سزا دےکر جزیرہ اندمان بھیج دیا نب مجاہدین کی خدمات موصوف نے احسن طریقہ پر انجام دیں۔
عبدالحلیم شرر:۔ مولانا عبدالحلیم رحمہ اللہ شررادبی دنیامیں اعلیٰ وارفع مقام پر فائز تھے۔ آپ مختلف کتابو ں کےمنصف ہونے کے ساتھ ساتھ کئی جرائز مثلاً مہذب، دلگداز وغیرہ کے ایڈیٹر رہے۔
تصویر کا دوسرارُخ: ۱۸۶۳ء کی ابتداء سے”وہابی “اپنے جان ومال کی قربانیاں اللہ تعالیٰ کی رضاکی خاطر پیش کررہے تھے۔ علماء احناف نے اس موقع کوغنیمت خیال کرتے ہوئے وہابیوں پر ایک کاری ضرب لگانے کی بھرپور کوشش کی۔ جس کےلیے مجاہد اعظم مولوی عبدالقادر لدھیانوی کے فرزند ارجمند اور مولانا حبیب الرحمٰن رئیس الاحرارکے دادا مولوی محمدبن عبدالقادر نے ایک رسالہ بنام انتظام المساجد باخراج اہل الفتن والمفاسدتحریر کیا اور لدھیانہ سے پٹنہ پہنچ کر تقسیم کیاجس سے وہاں کے پُرامن حالت حنفی اور اہل حدیث کے جھگڑوں میں تبدہل ہوگئے کیونکہ مذکورہ رسالہ میں لکھاگیا تھا کہ اہل حدیث کومسجد میں نمازتک ادا نہ کرنے دو بلکہ ان کا قتل تک جائز ومباح ہے۔ دارالعلوم دیوبندکی تاسیس :۔ دارالعلوم کی بنیاد ۱۲۸۳ھ ۱۵ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ بمطابق ۱۶/اپریل ۱۸۶۵ء کو رکھی گئی یہ
جواب :۔ ہندکے دارالحرب ہونے میں اختلاف علماء کا ہے۔ بظاہر تحقیق حال بندہ کی خوب نہیں ہوئی۔ حسبِ اپنی تحقیق کے سب نے فرمایا ہےا ور اصل مسئلہ میں کسی کو اختلاف نہیں اوربندہ کو بھی خوب تحقیق نہیں کہ کیاکیفیت ہند کی ہے۔ و اللہ اعلم رشید احمد عفی عنہٗ گنگوہی، ( رشید احمد ۱۳۰۱ھ ) <mfnote>
کتاب کی معلومات
×
Book Name
حیات میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ
Writer
پروفیسر مُحمّد مبارک کراچی
Publisher
اہلحدیث ٹرسٹ رجسٹرڈ۔ کورٹ روڈ کراچی
Publish Year
Translator
Volume
Number of Pages
99
Introduction