گئے، ان کے آخری غسل کا پانی ان تراشوں سے گرم کیا گیا تھا، پانی گرم ہوگیا، تراشے پھر بچ گئے تھے، الغرض ہمارے اسلاف میں ایسے ہزاروں باکمال لوگ گزرے ہیں ، جن میں سے ایک ایک نے سیکڑوں تصنیفات یادگار چھوڑی ہیں ، مشتے نمونہ از خروارے چند ایک کے اسمائے گرامی کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے اس طرف توجہ مبذول کرانا مقصود ہے کہ ہمارے بھٹی صاحب رحمہ اللہ ہی نے اسلاف کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے اپنے قلم سے تصنیفات کا انبار لگا دیا، جن کے صفحات کی تعداد 50,000 سے متجاوزہے اور پھر آپ کا اسلوبِ نگارش اس قدر دلکش اور جاذبِ نظر ہے کہ وہ افسانے سے زیادہ افسانوی اور حقیقت سے زیادہ حقیقی ہے۔ یوں سمجھئے کہ آپ کی ہر تحریر صبح کے روشن اُجالے کی تصویر ہے۔ اردو و عربی زبان کے نامور ادیب اور دونوں زبانوں میں بہت سی کتابوں کے مصنف مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا سید داود غزنوی رحمہ اللہ سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے آپ کا سراپا ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’سانچہ میں ڈھلا ہوا جمالِ ظاہری، حسنِ مردانہ اور افغانی وجاہت کا ایک پیکر، سر و قامت دوہرا بدن، سرخ سفید رنگ چہرے پر حسب نسب کا نور، معلوم ہوتا تھاکہ کوئی فرشتہ آسمان سے اتر کر فرشِ زمین پر آگیا ہے۔‘‘(پرانے چراغ: ۲/ ۲۷۸)
اب جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے قلم سے حضرت غزنوی رحمہ اللہ کے پیکرِ جمیل کی منظر نگاری ملاحظہ فرمائیں :
’’اس وقت مولانا کا قافلۂ حیات پچاس کی منزل سے چند قدم آگے نکل چکا تھا، انھیں دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جوانی قیامت ڈھاتی ہو گی، سرخ گورا رنگ، تیکھے نقوش، معتدل جسم، متناسب اعضاء، کشادہ پیشانی، چمکتی آنکھیں ، رعب دار مگر سنجیدگی کے حسین ترین زیروبم میں تیرتی ہوئی آواز، قدرت کے دستِ حسن آفرین نے نہایت پیار سے ان کاہیولا تیار کیا تھا، وہ بولتے تھے تو زبان سے پھول جھڑتے تھے اور خاموش ہوتے تھے تو چہرے پر پُروقار متانت کی روشنی نمودار ہوجاتی تھی۔‘‘
(گزر گئی گزران، ص: ۲۰۲)
اس تقابل سے مقصود صرف یہ ہے کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ ایک ممتاز صحافی، بہترین اسلوبِ نگارش کے حامل ادیب اور بلند پایہ مصنف تھے، ان کی تحریر میں پختگی، رعنائی و زیبائی، زبان و ادب کی چاشنی، استدلال و عقلیت کا رکھ رکھاؤ اور جملوں کی برجستگی بدرجہ اتم موجود تھی، ان کا زورِ بیان، ان کی برجستگی، ان کی شگفتگی و شادابی اور ان کی دل آویزی قاری کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے کہ وہ آخری سطریں پڑھنے کے بعد ہی اس گرفت سے آزاد ہو سکتا ہے۔
بھٹی صاحب رحمہ اللہ خلوص کا ایک دریائے بیکراں تھے، ان سے جب ملاقات ہوتی، ان کی شخصیت کی دل آویزی مزید نکھر کر سامنے آجاتی۔ مجھے کئی دفعہ برادرِ عزیز جناب محمد سرور طارق کے ہمراہ بھی ان کے گھر جانے کا شرف حاصل ہوا، غالباً ۲۰۰۷ء میں طارق اکیڈمی فیصل آباد کی طرف سے ایک لائبریری قائم کی گئی، جس کا نام ’’اسماعیل لائبریری‘‘
|