Maktaba Wahhabi

379 - 924
اکثر فون پر جماعت کی بے حسی کا ذکر کرتے، پھر فرماتے کہ ہمارے بزرگوں نے جس انداز میں جماعت کے لیے محنت کی تھی، آج وہ سب ’’مروجہ سیاست‘‘ کی نذر ہو کر رہ گئی ہے(اس بارے میں اور بھی بہت کہا لیکن ۔۔۔ للعاقل تکفیہ الإشارۃ)، اپنی کتب میں بھی متعدد مقامات پر اس کا ذکر نہایت دل گرفتہ انداز میں کیا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے مذاقاً عرض کیا کہ آپ کی کتب سے آپ کے بیان کردہ لطائف و ظرائف کو جمع کر کے الگ کتابی شکل میں چھاپا جائے اور اس کا نام رکھا جائے ’’مولانا محمد اسحاق بھٹی لطائف و واقعات کے آئینے میں ‘‘ یہ سن کر کھل کھلا کر ہنس دیے۔ بھٹی صاحب مرحوم نے مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ سے تعلق اپنی کتاب ’’ارمغانِ حنیف‘‘ میں ایک باب اسی طرح کے عنوان سے قائم کیا ہے، یعنی ’’مولانا محمد حنیف واقعات و لطائف کے آئینے میں ‘‘۔ ایک بار میں نے عرض کیا کہ بھٹی صاحب! میرا ارادہ ہے کہ میں ’’تذکرہ علمائے بلتستان‘‘ پر کام کروں ، میں نے ان سے کتاب کا تجویز کردہ نام کا بھی ذکر کیا: ’’اللؤلؤ والمرجان في تذکرۃ علماء بلتستان‘‘ یہ سن کر نہایت خوش ہوئے اور فرمانے لگے، اس کام کو ضرور کرو، کچھ مفید مشوروں اور دعاؤں سے نوازا۔(ارادہ تو کر بیٹھا ہوں ، دیکھیں کب اس کام کے لیے موقع ملتا ہے؟) وفات سے ایک دن قبل خیال آیا کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو فون کروں ، لیکن تدریسی مصروفیت اور دیگر امور میں مشغولیت کی وجہ سے ذہن سے نکل گیا(اس سے تقریباً کوئی دس دن قبل بات ہوئی تھی، نہایت ہشاش بشاش تھے)۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کی صبح آٹھ بجے کے قریب الشیخ عبدالعزیز بٹ صاحب کا میرے موبائل پر میسج آیا کہ ’’مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب وفات پا گئے ہیں ۔‘‘ یہ پڑھ کر حواس مختل ہوگئے، جب کچھ ہوش آیا تو تصدیق کی غرض سے ان کے گھر فون کیا تو بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے برادر زادے برادرم جناب حسان سعید صاحب نے بتایا کہ وہ وفات پاگئے ہیں ۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ وفات کے کچھ دنوں بعد ان کے گھر فون کیا تو ان کے چھوٹے بھائی جناب سعید احمد بھٹی صاحب سے بات ہوئی، ان سے ان کے آخری دنوں کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ سردیوں (دسمبر/ جنوری)میں انھیں ٹھنڈ کی وجہ سے کمر میں تکلیف ہو جاتی تھی، اس بار بھی یہ تکلیف ہوگئی تھی، ساتھ ہی سانس کا بھی مسئلہ ہوگیا تھا، آخری دن سانس اُکھڑنے لگی، تو ہم انھیں لے کر میو ہسپتال لے گئے، یہاں آکسیجن لگا دی گئی، بالآخر ۲۲؍دسمبر ۲۰۱۵ء کو صبح ساڑھے پانچ بجے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اﷲ پاک نے حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو شہرتِ دوام عطا کیا، اس کا سبب کیا ہے؟ بقول محترم المقام حافظ احمد شاکر حفظہ اللہ(مدیر مسؤل: ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور، انھوں نے ان کی وفات پر ’’الاعتصام‘‘ کے اداریے میں اپنے احساسات کا ذکر کیا ہے)کہ اس شہرت کا سبب ان کا اپنے اقربا سے صلہ رحمی ہے، اپنے لیے کچھ نہیں بنایا، جو بنایا
Flag Counter