Maktaba Wahhabi

276 - 924
مبارک دارالعلوم کے دفتر کے ساتھ کچی مٹی سے بنی ہوئی ہے۔ اس پر ایک پودے کی ایک شاخ اس طرح دراز ہے کہ قبر پر سایہ کیے ہوئے ہے۔ دو ڈھائی برس قبل غالباً ۲۰۱۳ء میں محترم حافظ مقصود احمد صاحب(صدر جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن)نے حضرت مرحوم کو کانفرنس میں دعوت دے کر بلایا۔ چنانچہ حضرت مخدوم گرامی رحمہ اللہ کی معیت میں بذریعہ کار مجھے بھی سعادت ملی کہ عارف باللہ حضرت صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ کی قبر پر دعائے مغفرت کا موقع میسر آیا۔ میں نے ارادہ کیا کہ ماموں کانجن جا کر سب سے پہلے حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ کی قبر پر دعائے مغفرت کروں گا۔ پھر اعیان کانفرنس سے ملاقات کریں گے۔ وہاں کار پر پہنچے تو ہمیں مین گیٹ سے اترنے کے بجائے اس سے اگلے گیٹ پر اترنے کا کہا گیا اور وہاں اتر کر اندر داخل ہوئے تو وہاں بعض افراد اور علمائے کرام کھڑے تھے۔ میں انھیں ملتا رہا تو دیکھا کہ حضرت مخدوم گرامی رحمہ اللہ ملتے ملتے مجھ سے بھی پہلے حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ کی قبر پر محوِ دعا تھے۔ جب میں پہنچا تونہایت استغراق سے آپ حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ کی قبر مبارک پر پرنم آنکھوں سے دعا کیے جا رہے تھے۔ میں بھی ان کے دائیں کندھے کے پیچھے کھڑا ہوکر دعا میں مشغول ہوگیا۔ حضرت صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ ۱۹۷۵ء میں اللہ کو پیارے ہوئے تھے۔ ان پر باقاعدہ کوئی کتاب نہ لکھی گئی تھی۔ یہ سعادت حضرت صوفی عائش محمد حفظہ اللہ کو حاصل ہوئی کہ انھوں نے اس کتاب کے لکھنے کی تحریک فرمائی اور اس کے مسودے کو حضرت مولانا عبدالقادر صاحب ندوی رحمہ اللہ نے بھی پڑھا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے صوفی صاحب مرحوم پر ۴۸۵ صفحات کی کتاب لکھی، جو اُن کا ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ مولانا عبدالقادر ندوی رحمہ اللہ بھی ایک درویش صفت اور جہاندیدہ شخصیت تھے۔ بڑے تپاک سے ملتے تھے۔ سالانہ کانفرنس کے موقع پر والہانہ چل پھر رہے ہوتے تھے۔ عموماً سادہ طبع اور سادہ لباس میں اور تمام چھوٹے بڑے کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ کے خادم خاص اور درویشی میں بے مثال تھے۔ آہ! یہ بزرگ بھی بڑے اللہ والے تھے۔ راقم کو ان کی باتیں بغور سننے اور ان کے گھر میں مخدوم گرامی رحمہ اللہ کے ساتھ مل کر کھانا کھانے کی سعادت حاصل ہے۔ اللہ کریم ان دونوں بزرگوں کو جنت کے کھانے کھلائے۔ آمین مناظرِ اسلام مولانا احمد دین گکھڑوی رحمہ اللہ پر بھی کوئی کتاب نہ تحریر کی گئی تھی۔ حضرت مخدوم گرامی رحمہ اللہ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ موصوف پر کتاب مرتب کرنا چاہتا ہوں ۔ ’’الاعتصام‘‘ میں اشتہار بھی شائع کریں اور جو ہو سکے معلومات بھی اکٹھی کرنا ہیں ۔ میں نے خود ایک مضمون مولانا گکھڑوی رحمہ اللہ پر ’’الاعتصام‘‘ میں لکھا۔ پھر بعض پرانے احباب و علمائے کرام کی خدمت میں خطوط لکھے اور ان سے مولانا گکھڑوی رحمہ اللہ کے واقعات و تقاریر کے اقتباس اور مناظروں کی رودادیں منگوائیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بسیط کتاب مولانا احمد دین گکھڑوی رحمہ اللہ پر تیار ہوگئی۔ اس
Flag Counter