کاپی کر کے پوسٹ کیے، جنھوں نے آپ سے سندِ اجازہ لی تھی۔ مدثر صاحب نے وہ تحریر مولانا اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو پہنچا دی، بھٹی صاحب نے جو ’’دبستانِ حدیث‘‘ میں آپ کی سوانح پر تفصیل سے مضمون لکھا ہے، یہی مضمون اس کا اصل ماخذ تھا۔ بھٹی صاحب نے دبستان میں ہمارے شیخ نورپوری رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے چند ایک شاگردوں کا بھی نام درج کیا ہے، جن میں راقم کا بھی ذکر کیا ہے۔ آپ کی زندگی کا یقینا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ آپ نے برصغیر کے جلیل القدر علما خصوصاً علمائے اہلِ حدیث کے حالاتِ زندگی اور ان کے علمی وادبی کارناموں کو اپنی کتابوں میں محفوظ کر دیا ہے، یعنی آپ نے ۴۰ کے لگ بھگ کتب تصنیف کیں اور ان کتب اور دیگر مقالات و مضامین کے پچاس ہزار کے قریب قریب صفحات بنتے ہیں ۔ تحریکِ آزادی میں بھی آپ نے اہم کردار ادا کیا، آپ نے اپنی ریاست کی ’’پرجا منڈل‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی، جس کے صدر اس زمانے میں گیانی ذیل سنگھ تھے۔ اس سلسلے میں آپ کو کئی مصائب اٹھانے پڑے۔ تحریکِ آزادی کے سلسلے میں آپ کئی بار جیل بھی گئے۔ جیل کا ایک واقعہ آپ نے اپنی کتاب ’’نقوشِ عظمتِ رفتہ‘‘ میں درج کیا ہے، فرماتے ہیں : ’’فرید کوٹ کے داروغہ جیل کا نام عجائب سنگھ تھا، بہت شریف اور نرم آدمی تھا، حتی الامکان کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا تھا۔ ایک دن دس بجے کے قریب وہ ہمارے پاس آیا اور کہا: ’’میں صابن بھیج رہا ہوں ، مہربانی کر کے آج آپ اپنے کپڑے دھولیں ، ہم اس پر متعجب ہوئے، کیونکہ آج صابن ملنے والا دن تو نہیں تھا۔ دوسرے دن دس بجے کے قریب عجائب سنگھ آیا اور کہا: مہربانی فرما کر میرے ساتھ چلیے۔ وہ دیوڑھی میں لے گیا، ہم نے دیکھا کہ ایک گورے چٹے صاحب وہاں تشریف فرما ہیں ، ان کے ساتھ ریاست کے چیف سیکرٹری رام سنگھ بیٹھے ہیں ۔ ہمیں دیکھ کر یہ دونوں کھڑے ہوگئے اور سب سے ہاتھ ملائے۔ کھدر پوش آدمی نے چیف سیکرٹری سے کہا: آپ تشریف لے جائیے، میں ان سے ضروری بات کرنا چاہتا ہوں ۔ ’’میں سمجھا کہ یہ بھیم سین سچر ہوں گے، لیکن انھوں نے بتلایا: میرا نام سیف الدین کچلو ہے اور میں پنجاب کانگریس کا صدر ہوں ۔ میں نے ان سے کہا: پنجاب کانگریس کے صدر تو مولانا سید محمد داود غزنوی تھے۔ انھوں نے بتایا: نئے انتخاب میں مولانا داود غزنوی صدر نہیں رہے، اب یہ ذمے داری مجھ پر ڈال دی گئی ہے۔ ڈاکٹر کچلو نے بتایا کہ باہر تحریک زوروں پر چل رہی ہے، یہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے کانگریس ہائی کمان نے مجھے یہاں بھیجا ہے، ایک دو دن میں پنڈت جواہر لال نہرو یہاں آ رہے ہیں ، وہ مہاراجہ سے گفتگو کریں گے، پرجا منڈل کے مطالبات مان لیے جائیں گے اور آپ لوگوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ ’’کچھ عرصے بعد پنڈت نہرو فرید کوٹ آئے، لیکن ریاست میں دفعہ ۱۴۴ نافذ تھی، وہ بذریعہ ریل آئے۔ بہت بڑا ہجوم ان کے استقبال کے لیے فرید کوٹ کے ریلوے اسٹیشن پر جمع تھا، وہ ہجوم کے ساتھ پیدل |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |