Maktaba Wahhabi

218 - 924
حضرت مرحوم نے ہمیشہ اہلِ علم کی حوصلہ افزائی اور اپنے مسلک کے دینی اداروں کی سر پرستی فرمائی۔ آپ نے دینی و عصری تعلیم اور تاریخ نویسی کے فروغ کے لیے مختلف اطراف میں بے شمار رجالِ کار پیدا کیے۔ اس لحاظ سے آپ اہلِ حدیث کے لیے عظیم علمی و روحانی سرمایہ تھے۔ خود فرماتے تھے کہ میں نے تعلیم ملازمت کے لیے نہیں ، بلکہ ایک تربیت یافتہ انسان بننے کے لیے حاصل کی۔ راقم کا شمار بھی حضرت مولانا صاحب رحمہ اللہ کے ادنیٰ خوشہ چینوں میں ہوتا ہے۔ میرے ساتھ ان کا نہایت ہی خلوص اور شفقت بھرا تعلق تھا۔ان کی رہایش گاہ ساندہ اور آفس پیغام ٹی وی لاہور میں دینی پروگراموں کی ریکارڈنگ کے دوران میں ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں ۔ وہ بہت سادہ، نفیس، مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک ہونے کے باوجود نہایت درجہ کے مسلکی غیرت و حمیت اور تصلب رکھنے والے تھے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ رحمہ اللہ حضرت علامہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ ، حضرت سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ ، حضرت علامہ حافظ محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ، حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ و دیگر اکابر کے پروردہ اور فیض یافتہ تھے کہ جنھوں نے زندگی بھر ’’قال اللّٰہ وقال الرّسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘ کا درس دیا اور تاحیات اکابر کی علمی نسبتوں کے امین رہے۔ مرحوم محبت و شفقت کے سمندر، امن و آشتی کے علم بردار، عزم واستقلال کے پیکر اور اصول و نظریات کے پہاڑ تھے۔ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو چند دن علیل رہ کر وفات پا گئے۔ ان کی کمی رہتی دنیا تک محسوس کی جاتی رہے گی۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ ایسی شخصیات تو قدرت کی طرف سے کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں ، جو خلوص بانٹتے ہوں ، محبتیں فراواں کرتے ہوں ، علم و ادب کی آبیاری کرتے ہوں ، جن کے اخلاق و کردار سے عزم و حوصلہ جھلکتا ہو۔ ایسے باکمال اور ہمہ صفت اور درویش لوگ ’’ڈھونڈنے نکلو گے، مگر پا نہ سکو گے۔‘‘ کے مصداق ہوتے ہیں ۔ لیس علی اللّٰہ بمستنکر أن یجعل العالم فی واحد ’’اللہ تعالیٰ کے لیے کیا مشکل ہے کہ ایک ہی بندے کو ایک عالم کی صفات سے نواز دے۔‘‘ اب آتے ہیں اس خصوصی کتاب ’’ارمغانِ مورخِ اہلِ حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ ‘‘کی طرف، جو ہمارے عزیز دوست مولانا حمید اللہ خان عزیز نے حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی وفات کے بعد محض چند ماہ کے اندر نہایت محنت اور جستجو کے ساتھ ان کی حیات وخدمات کو پندرہ ابواب کی صورت میں مرتب کر کے اپنی علمی، ادبی اور تصنیفی و تالیفی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، جس میں حضرت مرحوم کے خاندان، حیاتِ مستعار کے حالات و واقعات، تعلیم و ملازمت، زبان دانی، علم و حلم، اوصاف و خصائل، علمی وتصنیفی اور تحریکی و تنظیمی خدمات و آثار اور افکار و خطوط پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ کتاب کا سب سے بڑا باب ’’پہلا‘‘ ہے، جو اہلِ علم و فضل کے مضامین سے آراستہ ہے۔
Flag Counter