ان پر مکمل اعتماد کرتے تھے اور ضروری کاموں میں ان سے مشورہ لیتے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ بھی میاں صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ پر خلوص محبت کرتے اور کہتے کہ ان میں دین کے لیے کام کرنے کا جذبہ ہے، اس لیے میں ہر ممکن تعاون کرتا ہوں ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ عراق نے جب کویت پر حملہ کیا تو پاکستان میں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث واحد دینی و سیاسی جماعت تھی، جنھوں نے برملا سعودی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا۔ موچی دروازے میں بڑی حرمین شریفین کانفرنس کی، جبکہ ناصر باغ تک ریلی نکالی، اس موقع پر ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ کا خاص نمبر ’’حرمین شریفین‘‘ نکالا گیا، جس میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے خصوصی دلچسپی لی، مضمون بھی لکھا، وہ ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ غالباً اے این پی کے سربراہ خان عبدالغفار خان کی رحلت پر ان کی تعریف میں اداریہ لکھا، چونکہ وہ اول تا آخر کانگرسی تھا اور مر کر بھی پاکستان میں دفن ہونا پسند نہ کیا، بلکہ قندھار افغانستان میں دفن ہوئے، لہٰذا اس پر اعتراضات ہوئے اور بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے مجلہ ’’اہلِ حدیث‘‘ چھوڑ دیا، لیکن میاں فضل حق رحمہ اللہ کے ساتھ احترام کا رشتہ قائم رکھا اور اکثر میاں صاحب رحمہ اللہ کے ہاں آتے جاتے۔ میاں فضل حق رحمہ اللہ کی اچانک وفات پر انھوں نے ان کی دینی، تعلیمی، رفاہی، جماعتی خدمات پر مفصل کتاب لکھی، جس میں میاں صاحب رحمہ اللہ کے خاندان، ان کے والد میاں حسن اور چچا رانا امان اللہ کا تذکرہ کیا۔ ان کی جامعہ سلفیہ کے لیے محنت کا بھی بھرپور انداز میں ذکرِ خیر کیا۔ میاں نعیم الرحمن مرحوم بھی بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا بڑا احترام کرتے، ان سے خوب گپ شپ ہوتی اور خدمت بھی کرتے۔ اللہ تعالیٰ سب مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔ متعدد بار میاں نعیم الرحمن کے ہمراہ جامعہ سلفیہ میں تشریف لائے۔ اچھے مشورے دیتے اور اس بات کی ہمیشہ تاکید کرتے کہ جامعہ سلفیہ میں تخصص کا آغاز ہونا چاہیے، کیوں کہ یہی بانیانِ جامعہ کا مقصد تھا۔ اپنے بعض مضامین میں بھی انھوں نے جامعہ سلفیہ کی انتظامیہ کو مخاطب کر کے بعض تجاویز دیں ۔ جامعہ سلفیہ کے ساتھ جذباتی تعلق تھا، جب بھی بلاتے، بڑی محبت سے تشریف لاتے تھے۔ گذشتہ تعلیمی سال کے اختتام پر جامعہ کے تمام اساتذہ اور طلبہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی ریلی میں شرکت کے لیے لاہور آئے تو مولانا فاروق الرحمن یزدانی نے کہا: میں نے اولیٰ عالی کے طلبہ سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے ہاں لے چلوں گا، تاکہ یہ ان کو مل سکیں اور مجھ سے اجازت مانگی۔ میں نے یزدانی صاحب سے کہا: ایک تو مولانا کی رہایش ساندہ میں ہے، گلیاں تنگ ہیں ، اوپر سے اتنے طلبہ کیسے ان کے گھر میں جائیں گے، بہتر ہے آپ ان سے وقت لے لیں ، ہم جامعہ میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ رکھ لیتے ہیں ، جامعہ کے تمام اساتذہ اور طلبہ ان سے ملاقات کر لیں گے اور وہ ناصحانہ گفتگو بھی سن لیں گے۔ اس تجویز پر اتفاق ہوا اور مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے کمال مہربانی سے وقت دے دیا۔ وہ وقت مقرر پر اپنے بھائی سعید احمد بھٹی صاحب کے ہمراہ جامعہ میں تشریف لے آئے۔ جامعہ میں شاندار تقریب منعقد ہوئی، جس میں تمام اساتذہ کے علاوہ مولانا محمد یوسف انور اور مولانا ارشاد الحق اثری بھی شامل تھے۔ |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |