الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف، قاری نعیم الحق نعیم اور حافظ احمد شاکر سے بنے۔ ان میں سے جو شخصیات اللہ تعالیٰ کو پیاری ہو چکی ہیں ، اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور حافظ یوسف صاحب اور حافظ شاکر صاحب کو اللہ تعالیٰ صحت والی زندگی عطا فرمائے۔ آمین! مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے علمی، فکری، عملی اور عمری تفاوت کے باوجود ان کا میرے ساتھ دوستانہ رویہ تھا۔ ہر ملاقات پر وہ جماعتی زندگی کے علاوہ نجی حالات پر دوستانہ اور ہمدردانہ گفتگو کرتے، لیکن اس میں بزرگانہ اور پدرانہ شفقت غالب رہتی۔ ان کی مجلس آرائی سے مراد یہ بھی نہیں کہ زندگی میں کسی آلودگی کی آمیزش تھی، بلکہ وہ پنج وقتہ نماز کی پابندی اور بعد میں مسنون اذکار و وظائف کے علاوہ صبح خیزی اور شب زندہ داری کے لطف سے بہرہ ور تھے۔ نمازِ فجر سے قبل نوافل ادا کرنے اور نصف پارہ قرآن کی تلاوت ان کے معمول کا حصہ تھا۔ ان کے ساتھ آخری ملاقات ۱۳؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کی رات میرے بیٹے انجینئر سلمان راشد کی دعوتِ ولیمہ میں ہوئی۔ موسم کی سردی کے باوجود محبت کی گرمی کے ساتھ تشریف لائے اور خوب دعائیں دیں ۔ اپنی وفات سے تقریباً ایک ہفتہ قبل، اور شاید یہ ان کی زندگی کی آخری تقریب تھی، ہمیشہ کی طرح ہنستے، مسکراتے اور خوشیاں بکھیرتے جوانوں کی طرح تشریف لائے۔ ان کے ساتھ حافظ احمد شاکر تھے۔ تقریب میں جس عالم کو پتا چلا، وہ آگے بڑھ کر انھیں ملا۔ وہ اگلی نشستوں پر تشریف فرما تھے کہ امیر محترم پروفیسر ساجد میر کی نظر پڑی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور مولانا بھٹی رحمہ اللہ کے پاس جا کر سلام دعا کے بعد ان کی خیریت دریافت کی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جماعت کے اکابر و عمائد اور علما و مشائخ میں ان کا کتنا احترام تھا۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ بڑے خوش تھے اور فرمایا کہ ’’یار! تم نے کتنے دوستوں سے ملاقات کروا دی ہے۔‘‘ ان کا خاص وصف اور کمال یہ بھی تھا کہ تمام جماعتی خاندانوں اور خانوادوں کے ساتھ برابر کا تعلق رکھتے تھے اور یکساں مقبول تھے۔ روپڑی، غزنوی، لکھوی، راشدی اور قصوری خاندانوں سمیت انھوں نے مولانا امرتسری، مولانا سیالکوٹی، مولانا گوندلوی، مولانا ندوی، مولانا بھوجیانی رحمہم اللہ اور دیگر اکابر کی خوب تذکرہ نویسی اور خاکہ نگاری کی۔ وہ سیاسی اور مذہبی اعتبار سے اپنا خاص مسلک اور مزاج رکھتے تھے، جس بات کو مناسب سمجھا اس کا برملا اظہار کیا۔ کبھی مصلحت آڑے نہیں آنے دی۔ نماز کے بعد باقاعدگی سے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے تھے اور نہ مانگنے والوں کے متعلق کہتے کہ ان کے پاس تو پہلے ہی سب کچھ ہے، انھیں مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہمیں تو سب کچھ چاہیے، دنیوی زندگی کی ضرورت سے لے کر اُخروی زندگی میں کامیابی تک سب کچھ چاہیے اور یہ سب کچھ اللہ سے مانگنا ہے۔ سیاسیات میں ان کا مسلک ابو الکلامی تھا۔ ان کی فہم و فراست اور عقل و دانش کو اثاثہ سمجھتے تھے اور ساتھ ہی مصورِ پاکستان اور بانی پاکستان کی قائدانہ صلاحیتوں کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ مولانا بھٹی رحمہ اللہ مزاج کے بڑے سادہ تھے۔ اسراف و تبذیر سے نفرت تھی۔ لباس و خوراک دونوں سادہ تھے۔ یہ مزاج انھیں اپنے دادا جان رحمہ اللہ کی تربیت اور مولانا بھوجیانی رحمہ اللہ کی صحبت سے ملا تھا۔ مولانا بھوجیانی مرحوم بھی |
Book Name | ارمغان مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی |
Writer | حمید اللہ عزیز |
Publisher | ادارہ تفہیم الاسلام احمدپورشرقیہ، بہاول پور/ دار ابی الطیب، گوجرانوالہ |
Publish Year | مارچ 2016ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 924 |
Introduction |