جنازے کاوقت ہوا تو حافظ صاحب پہنچ گئے۔انھوں نے اس قدر رقت آمیز انداز میں جنازہ پڑھایا کہ خود بھی روئے اور مقتدی بھی روتے رہے۔حدیث میں جنازے کی جو دعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں، وہ سب نہایت خشوع و خضوع سے پڑھیں۔ جنازے کی نماز ختم ہوئی تو اعلان فرمایا کہ کوئی شخص یہاں سے نہ جائے، دفن کے بعد قبر پر پھر دعا کی جائے گی۔چنانچہ قبر پر بھی رو رو کر طویل دعا کی۔اس کے بعد ایک قصائی نے بلند آواز سے میت کے وارثوں سے کہا: ’’او قصائیو! تہاڈے مولا بخش نوں مولا نے بخش دتا اے۔‘‘ حافظ صاحب کا نمازِ جنازہ پڑھانے کا طریقہ گوجراں والا میں مشہور تھا اور مرنے والے کے وارثوں کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کا جنازہ حافظ صاحب پڑھائیں۔ جنازے کے علاوہ لوگ اپنے بچوں کی نکاح خوانی کے لیے بھی ان کی خدمت میں آتے اور نکاح پڑھانے کی درخواست کرتے۔ ( مولانا سلفی کا جنازہ: حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی نے 20 فروری 1968ء کو وفات پائی تو ان کا جنازہ بھی حافظ صاحب نے پڑھایا۔گوجراں والا کی تاریخ کا یہ بہت بڑا جنازہ تھا۔اس میں بے شمار علما و صلحا شامل تھے، لیکن جنازہ پڑھانے کی سعادت حافظ محمد یوسف صاحب کے حصے میں آئی۔وہ حضرت مولانا سلفی کے بے حد عقیدت مند تھے۔مولانا بھر پور جوانی میں 1921ء میں گوجراں والا تشریف لائے۔اس شہر میں انھوں نے خطابتی، تدریسی اور تصنیفی اعتبار سے 47 سال خدمات سر انجام دیں، جن کے نتیجے میں وہاں کی فضا بالکل بدل گئی اور ہر سو توحید و سنت کا شامیانہ تن گیا۔مولانا کی خدماتِ گوناگوں کی بنا پر گوجراں والا کا ہر فرد ان کا احترام کرتا تھا، وہ بھی ہر شخص کو اس |