Maktaba Wahhabi

333 - 346
کتاب میں حدیث سے متعلق مولانا کا مضمون مسلکِ اعتدال بھی تھا، حافظ صاحب نے یہ مضمون پڑھا تو انھیں احساس ہوا کہ حدیث کی حجیت و استناد کے بارے میں مولانا کا موقف محدثین کے موقف سے ہٹا ہوا ہے۔اب وہ یہ مضمون لے کر مولانا کی خدمت میں پہنچے اور اس باب میں ان سے سوال کیا۔پہلے تو مولانا خاموش رہے، لیکن جب سوال کا جواب دینے پر اصرار کیا گیا تو فرمایا: یہ میری ذاتی رائے ہے۔ حافظ صاحب نے کہا ہمارا نقطہ نظر تو یہ ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا اور نہ اس میں ذاتی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے، لیکن آپ کچھ اور ہی فرما رہے ہیں۔اس صورت میں ہم آپ کے ساتھ نہیں چل سکتے۔آپ کی راہ اور ہے، ہماری اور۔ہم حدیث کی روشنی میں دعوت و تبلیغ کا کام کریں گے، آپ جس طرح جی چاہے کریں۔ہمارا اور آپ کا اشتراک ختم ! ( ایک قصائی کا جنازہ: چودھری عبدالواحد گوندل بتاتے ہیں کہ گوجراں والا میں ایک شخص مولا بخش پہلوان رہتے تھے جو قصائی برادری سے تعلق رکھتے تھے اور مسلکاً بریلوی تھے۔بھیڑ بکریوں کی ان کی آڑھت تھی اور مالی اعتبار سے آسودہ حال تھے۔آخر عمر میں وہ بیمار ہو گئے اور بیماری نے شدت اختیار کر لی۔انھوں نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ میرا جنازہ کتابوں کی دکان والے مولوی صاحب پڑھائیں(اس سے سکول بک ڈپو کے مالک حافظ محمد یوسف گکھڑوی مراد تھے)مولا بخش قصائی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حافظ صاحب کی خدمت میں آئے اور باپ کی وصیت کے متعلق بتایا اور کہا کہ جب جنازہ گھر سے اٹھایا گیا تو ہم آپ کو جنازہ گاہ لے جائیں گے۔حافظ صاحب نے فرمایا: تمھیں آنے کی ضرورت نہیں۔میں خود ہی جنازہ گاہ پہنچ جاؤں گا۔
Flag Counter