( راقم الحروف پر شفقت: ایک مرتبہ حافظ صاحب اس فقیر کو ملنے کے لیے گوجراں والا سے لاہور تشریف لائے، لیکن میں اس دن گاؤں چلا گیا تھا۔حافظ صاحب ہمارے گاؤں پہنچ گئے۔سخت گرمیوں کا موسم۔اس زمانے میں بجلی بھی وہاں نہیں تھی۔اتفاقاً اس وقت وہاں مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ بھی تشریف فرما تھے۔میں ان دنوں ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کی ادارت سے منسلک تھا۔میں حافظ صاحب کو دیکھ کر حیران ہوا۔فرمایا: آج صبح تم سے ملاقات کے لیے شدید جذبہ دل میں ابھرا۔یہی جذبہ مجھے لاہور اور پھر یہاں لے آیا۔وہ رات میرے پاس گاؤں میں رہے۔صبح گوجراں والا چلے گئے۔گرمی کے موسم میں میرے لیے اتنا سفر کیا۔یہ مجھ پر ان کی شفقت تھی، جس کا اثر مجھ پر ہمیشہ رہا۔ ( عمل بالحدیث کا جذبہء صادقہ: حافظ صاحب قرآن و حدیث پر عمل کے بارے میں بہت سخت تھے اور نہایت نازک احساسات رکھتے تھے۔اس کے خلاف ذرہ سی مدا ہنت بھی انھیں گوارا نہ تھی۔قیامِ پاکستان کے بعد لاہور میں جماعتِ اسلامی کا دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بھی باقاعدگی سے جاری تھا اور حافظ صاحب بھی اپنے رفقاے کرام کے ساتھ یہی خدمت سرانجام دے رہے تھے۔جماعتِ اسلامی کا دفتر اچھرہ میں تھا اور حافظ صاحب کا مرکزِ تبلیغ تھا مغل پورہ کی مسجد توحید گنج۔ حافظ صاحب اور جماعتِ اسلامی والوں نے فیصلہ کیا کہ مشترکہ طور پر سلسلہء دعوت جاری رکھا جائے۔اس ضمن میں حافظ صاحب کی مولانا مودودی صاحب سے مشاورت ہوئی اور اس پر عمل شروع ہو گیا۔اس اثنا میں حافظ صاحب کو مطالعہ کے لیے مولانا مودودی کی بعض کتابیں بھی دی گئیں۔ان کتابوں میں ایک |