Maktaba Wahhabi

331 - 346
تھے، جہادِ کشمیر کے لیے دریائے جہلم میں بذریعہ کشتی اسلحے کی پیٹیاں لے کر جا رہے تھے۔ایک مقام پر پانی کا اتنا شدید ریلا آیا کہ کشتی الٹ گئی اور اسلحے کی پیٹیاں پانی کی تہہ میں چلی گئیں۔یہ لوگ تو تیر کر دریا پار کر گئے، لیکن اسلحہ کا کچھ پتا نہ چلا، حافظ صاحب وہیں بیٹھ گئے اور اللہ سے رو رو کر دعا کرنا شروع کی اور فریاد کناں ہوئے کہ ہم اپنی دانست میں تیری راہ میں جہاد کے لیے نکلے تھے، لیکن جو اسلحہ کفار سے مقابلے کے لیے ہم لائے تھے وہ دریامیں غرق ہو گیا، اب تو ہی ہماری مدد کرنے والا ہے۔تھوڑی دیر بعد پانی کا زور ختم ہوا تو پیٹیوں کا ایک سرا نظر آیا اور پھر چند ساعتوں میں ساری پیٹیاں سامنے آ گئیں اور دریا سے نکال لی گئیں۔ ( تقوی شعاری: حافظ صاحب کے فرزند ارجمند حافظ عطاء السلام اپنے متلعق بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک روز گکھڑ سے ریل پر سوار ہوئے اور بغیر ٹکٹ گوجراں والا آ گئے۔دکان(سکول بک ڈپو)پہنچے تو حافظ صاحب تشریف فرما تھے۔انھوں نے بتایا کہ بغیر ٹکٹ آیا ہوں۔حافظ صاحب یہ الفاط سنتے ہی طیش میں آ گئے اور بیٹے کو زور سے تھپڑ رسید کیا اور فرمایا: تم نے چوری کی ہے۔اسی وقت انھیں دکان سے اٹھایا اور گوجراں والا کے اسٹیشن ماسٹر کے سامنے پیش کیا۔فرمایا: یہ میرا بیٹا چور ہے۔اس نے گکھڑ سے لے کر یہاں تک بغیر ٹکٹ سفر کیا ہے۔ریلوے کے قانون کے مطابق اسے سزا دی جائے۔اسٹیشن ماسٹر نے تو حافظ عطاء السلام کو چھوڑ دیا، لیکن حافظ صاحب نے باہر آکر بیٹے سے کہا: گکھڑ کے دو ٹکٹ لو اور انھیں پھاڑ کر یہاں پھینک دو تا کہ محکمہء ریلوے کا جو نقصان تم نے کیا ہے وہ پورا ہو جائے۔یہ تھی حافظ صاحب کی تقوی شعاری۔
Flag Counter