میں داخل ہوتا ہے، اپنے جسم کی ظاہری میل کچیل اتارتا ہے اور اجلا لباس زیبِ تن کرتا ہے۔باطنی پاکیزگی تو اس کی رمضان المبارک کے اعمال سے مکمل ہو گئی تھی، غسل سے ظاہری طہارت و صفائی بھی ہو گئی۔ اب یہ سعید روح اہلِ خانہ کو ساتھ لے کر عید گاہ کی طرف چل پڑا ہے۔یہ تو تھی تصویر ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی﴾ کی اور اب اس سے اگلی آیت پر عمل شروع ہوا۔﴿وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ﴾ یعنی اپنے رب کے نام کا ذکر کر رہا ہے۔قدرے بلند آواز سے پکارتا ہے: اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر لا إلہ إلا اللّٰہ، واللّٰہ أکبر وللّٰہ الحمد یا یہ الفاظ اس کی زبان سے ادا ہوتے ہیں:اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر کبیرا والحمد للّٰہ کثیرا وسبحان اللّٰہ بکرۃ واصیلا۔ حال یہ ہے کہ ان خوش بخت افراد کو خوش آمدید کہنے کے لیے فرشتے گلیوں اور بازاروں میں موجود ہیں۔ان کی خیریت کے لیے دعا کر رہے ہیں اور ان کا استقبال کیا جا رہا ہے۔ اب یہ اللہ کا بندہ عید گاہ میں پہنچ گیا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت اور بلند آواز سے کر کے دوسرا حکم بجا لا رہا ہے اور وہ ہے: {فَصَلّٰی} یعنی نمازِ عید ادا کی۔اس نماز کے لیے نہ تو اذان دے کر لوگوں کو آگاہ اور خبردا رکیا گیا اور نہ قیامِ جماعت کے وقت کسی نے اقامت کہی۔پھر اس قدر ہجوم کیسے اکٹھا ہو گیا۔اللہ اکبر! آسمان میں ایک منظر اور ہے۔اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت کرتے ہیں:یہ اس قدر لوگ کیوں جمع ہوئے ہیں ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں:یہ اپنے گناہوں کی معافی اور جنت کے طلب گار ہیں۔فرمان ہوتا ہے گواہ رہو میں نے ان کو معاف کیا اور ان کو جنت عطا کی۔ ان دو آیات کا مطلب مکمل ہو گیا۔سورۃ الاعلیٰ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جہاں |