ہم تک پہنچا ہے: ((مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیْمَاناً وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مَنْ ذَنْبِہِ)) ’’جس نے یقین و خلوصِ نیت سے روزے رکھے، اس کے گزشتہ دور کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ جب گناہ معاف ہو گئے تو وہ پاک ہو گیا۔دوسرا فرمان یہ ہے کہ جس نے رمضان المبارک میں قیام کیا، نمازِ تراویح ادا کی اس کے بھی گناہ معاف ہوئے۔تیسرا فرمان یہ ہے کہ((مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ))جس نے لیلۃ القدر میں قیام کیا یعنی اعتکاف کیا تو اس کے بھی گناہ معاف ہو گئے۔اس کا تزکیہ نفس ہو گیا۔رمضان المبارک میں نیک اعمال کا اجر و ثواب زیادہ ہوتا ہے، اسی خیال کے پیشِ نظر رمضان میں زکات ادا کی جاتی ہے۔دور دراز سے غربا اور مدارس ومساجد کے سفیر آتے ہیں اور مالی امداد حاصل کرتے ہیں۔اس طرح مسلمان کا مال بھی پاک ہو گیا، کہ زکات نہ دینے والے کا مال پلید ہوتا ہے، مال ہی پاک نہیں ہوتا، بلکہ مال والے کو بھی پاک کرتا ہے: ﴿الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی﴾ انسان خطا کار ہے۔روزے کی حالت میں بھی بھول چوک ہو جاتی ہے۔بعض اوقات معیار سے کم تر کام کرتا ہے، لغو سے اعراض نہیں ہوتا، اس کے لیے صدقہ الفطر فرض کیا گیا اور وہ رمضان کے دوران کی لغویات سے بھی بری ہو گیا۔رمضان المبارک میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت ’’ریح مرسلہ‘‘ کی طرح ہوتی تھی۔یعنی تیز ہوا کی طرح خیرات کرتے تھے۔ان تمام نیک اعمال کی ادائیگی سے پوری صفائی اور پاکیزگی حاصل ہو جاتی ہے۔ ہلالِ عید نظر آ گیا۔انسان جسم کی پاکیزگی کے لیے بیدار ہوتا ہے، غسل خانے |