خطبہء جمعہ کا مطالعہ فرمائیے جو مجھے حافظ محمد یوسف گکھڑوی کے فرزندِ گرامی عطاء السلام کی وساطت سے موصول ہوا۔چودھری صاحب لکھتے ہیں : ’’میرے ایک دوست عبدالستار غوری میرے گھر آئے۔فرمایا: میں نے اخبار میں یہ اعلان پڑھا ہے کہ گکھڑ میں ایک مسجد کی تعمیر ہوئی ہے، جس کا افتتاحی خطبہء جمعہ حضرت مولانا داؤد غزنوی صاحب ارشاد فرمائیں گے، چلو آج وہیں نمازِ جمعہ ادا کریں گے۔ہم بس پر سوا ہوئے، گکھڑ جا کر بس سے اتر رہے تھے کہ دیکھا مولانا داؤد غزنوی بھی لاہور سے آنے والی بس سے اترے ہیں۔استقبال کے لیے حافظ یوسف صاحب موجود تھے۔علیک سلیک اور مصافحہ کے بعد ہم دونوں بزرگوں کے ساتھ مسجد میں پہنچے۔اذان کے بعد مولانا غزنوی صاحب منبر پر کھڑے ہوئے، خطبہء مسنونہ کے بعد سورۃ الاعلی کی ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی﴾ سے ﴿صُحُفِ اِِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی﴾ تک چھے آیات تلاوت کیں۔اب تفسیر اور ان الفاظ کے معانی کا ایک چشمہ جاری تھا۔خوب صورت چہرے سے بڑے ہی موزوں اور برمحل الفاظ ’’وابلٌ‘‘ کی طرح ہم سن رہے تھے، یعنی موسلا دھار بارش کا سا سماں تھا۔خطبہ کیا تھا، ایک خالص علمی کتاب تھی۔افسوس خطبہ ان کی آواز میں ریکارڈ نہ ہو سکا۔ایسا ہوتا تو یہ ایک نہایت گراں مایہ چیز ہوتی اور لوگ اس سے اخذِ فیض کرتے۔تا ہم بعض الفاظ و مطالب ذہن میں محفوظ ہیں، یاد داشت پر زور دے کر انھیں قلم بند کرتا ہوں۔ ’’سب سے پہلے مولانا غزنوی نے تزکیہء نفس کا ذکر کیا۔فرمایا: جب تک عقیدہ درست نہ ہو گا، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی طرف سے نازل کردہ ہدایت پر پورا پورا عمل نہ ہو سکے گا، نفس کی پاکیزگی ایک خواب ہو گی اور انسان دھوکے میں مبتلا رہے گا۔مولانا نے راہبوں اور جوگیوں کے مختلف طریقوں اور عملوں کا تذکرہ کیا |