Maktaba Wahhabi

323 - 346
خاصی وسیع مسجد ہے۔اس میں حفظِ قرآن کا مدرسہ جاری فرمایا۔اس مدرسے میں سیکڑوں بچوں نے قرآن حفظ کیا، جن میں بیرونی طلبا بھی شامل تھے اور مقامی بھی۔بیرونی طلبا کے لیے ناشتہ روزانہ حافظ صاحب کے گھر میں تیار ہوتا تھا، جب کہ دوپہر اور شام کا کھانا مسجد سے ملحقہ گھروں سے آتا تھا۔ حافظ صاحب کی اہلیہ محترمہ جنھیں احترام سے آپا جی کہا جاتا تھا، طلبا پر انتہائی شفقت کرتی تھیں اور ان سے والدہ کا سا سلوک روا رکھتی تھیں۔طلبا کو ناشتہ کرانے کے بعد اپنے حقیقی بچوں کو ناشتہ کراتی تھیں۔حافظ خالد محمود فاضل مدینہ یونیورسٹی، جو گوجراں والا سے تعلق رکھتے ہیں، بیان کرتے ہیں کہ میں نے بھی گکھڑ میں حافظ محمد یوسف صاحب کے جاری کردہ مدرسے میں قرآن مجید حفظ کیا تھا اور میرا مشاہدہ ہے کہ حافظ صاحب کی اہلیہ مرحومہ طلبا سے بے حد ہم دردی اور شفقت کا برتاؤ کرتی تھیں۔ گفتار و کردار کی ہم آہنگی: حافظ صاحب کی وسعت قلبی اور فراخ حوصلگی ملاحظہ ہو کہ اپنا رہایشی مکان مسجد میں بدل دیا ہے اور اس میں مدرسہ جاری کر کے لوگوں کے بچوں کو قرآن مجید حفظ کرایا جا رہا ہے۔پھر ان کے لیے ناشتہ بھی اپنے گھر میں تیار کیا جاتا ہے۔حافظ صاحب واقعتا ولی اللہ اور مخلص ترین خادمِ قرآن و حدیث تھے۔مادیت کے طوفان میں گھرے ہوئے اس دور میں حافظ صاحب جیسا شخص ملنا بہت مشکل ہے۔وہ صاحبِ گفتار بھی تھے اور صاحبِ کردار بھی۔یعنی ان کے گفتار اور کردار میں کامل ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔جو بات زبان پر آئی، وہ عمل سے بھی آشنا ہوئی۔ مسجد کا افتتاح اور مولانا غزنوی رحمہ اللہ کا خطبہ جمعہ: 1948ء میں حافظ محمد یوسف گکھڑوی نے اپنے ذاتی مکان کو منہدم کر کے
Flag Counter