حافظ صاحب کے والد صاحب کو پیر صاحب نے ان کا نام لے کر بلایا، چوں کہ وہ ان کے مرید تھے، اس لیے وہ انھیں خوب جانتے تھے۔اب والد صاحب نے پیر سے حافظ صاحب کے بارے میں پوچھا تو وہ کافی دیر تک کوئی لفظ زبان سے نہ نکال سکے اور خاموش بیٹھے انھیں دیکھتے رہے۔کچھ دیر کے بعد والد صاحب سے مخاطب ہوئے اور کہا اس نوجوان سے کہو یہ جو کچھ منہ سے پڑھ رہا ہے، اسے پڑھنا بند کر دے۔والد صاحب نے بیٹے سے کہا تو انھوں نے جواب دیا: میں ذکرِ الٰہی میں مشغول ہوں، اسے پڑھنا بند نہیں کر سکتا۔وہ پیرحافظ صاحب کے بارے میں کچھ نہ بتا سکا تو ان کے والد نے کہا: یوسف چلو گھر واپس چلیں۔تم اپنے مسلک میں سچے ہو اور میں تمھارا مسلک قبول کرتا ہوں۔اللّٰھم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ۔ حفظِ قرآن اور حدیث کی تعلیم: حافظ صاحب نے قرآن مجید لاہور کی مسجد لسوڑیاں والی میں حفظ کیا۔پھر لاہور کی مسجد چینیاں والی کے مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے رہے جو مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے جاری کیا تھا۔اس وقت اس مدرسے میں حضرت مولانا محمد علی لکھوی طلبا کو حدیث کی کتابیں پڑھاتے تھے، حافظ صاحب نے حضرت مولانا لکھوی سے کتبِ حدیث پڑھیں۔ مساجد کی تعمیر: حافظ صاحب نے لاہور ہی میں سکونت اختیار کر لی تھی۔یہاں انھوں نے شیخ محمد اشرف کے کتب خانے میں ملازمت کی اور مغل پورہ میں ان کا قیام رہا۔لاہور میں ان کی کوشش سے اہلِ حدیث کی ایک مسجد تولوکو ورکشاپ میں تعمیر ہوئی اور ایک مغل پورہ میں مسجد توحید گنج۔اس سے کئی سال بعد ان کی سعیِ بابرکت سے ایک مسجد گوجراں والا کے گھنٹا گھر کے قریب بنائی گئی، جسے مسجد اختر اہلِ حدیث کہا جاتا ہے۔ |